فیکٹ چیک: یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ چین سے درآمد کردہ ریلوے بوگیاں غیر فعال ہیں

 پاکستان ریلوے کے تین اہلکاروں نے تصدیق کی کہ یہ بوگیاں آپریشنل تھیں اور انہیں پاکستانی ٹرین کی پٹریوں پر2500 کلومیٹر تک چلایا گیا ۔

 یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ چین سے درآمد کردہ ریلوے بوگیاں غیر فعال ہیں۔

 پاکستان ریلوے کے تین اہلکاروں نے تصدیق کی کہ یہ بوگیاں آپریشنل تھیں اور انہیں پاکستانی ٹرین کی پٹریوں پر2500 کلومیٹر تک چلایا گیا ۔

متعدد سوشل میڈیا صارفین نے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان کی جانب سے 149 ملین ڈالر کی لاگت سے چین سے درآمد کی گئی 46 ریلوے بوگیاں ناقص تھیں۔

یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔

دعویٰ

3 جنوری کو ایک تصدیق شدہ ٹوئٹر اکاؤنٹ نے پوسٹ کیا کہ چین سے درآمد کی گئی ٹرین کی بوگیاں پاکستانی ٹریک کے لیے موزوں نہیں ہیں۔

ٹوئٹر صارف نے اپنی ٹوئٹ میں لکھاکہ ”88 پاکستانی افسران نے چین میں ان بوگیوں کا معائنہ کیا/منظوری دی، اتنے بڑے نقصان کے بعدانہیں برطرف کیا جانا چاہیے۔ “

10 جنوری کو ٹوئٹر پر اس ٹوئٹ کو 280,000مرتبہ دیکھا اور 3,610مرتبہ لائیک کیا گیا۔

4 جنوری کو ایک اور ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ”ریلوےکے وزیر نےچین سے 150 ملین ڈالر مالیت کی بوگیاں خریدیں جو پاکستانی ٹرین کی پٹریوں پر نہیں چل سکتیں۔ “

حقیقت

پاکستان ریلوے کے تین عہدیداروں نے اس بات کی تصدیق کی ہےکہ یہ تمام بوگیاں آپریشنل ہیں اور انہیں پاکستان کے ریلوے ٹریکس پر 2500 کلومیٹر تک چلاکر دیکھا گیا ہے۔

تاہم، ریلوےحکام کا مزید کہنا تھا کہ مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیےان بوگیوں میں چین نےاپنے خرچ پر مزید کچھ تبدیلیاں بھی کی ہیں ۔

سرکاری پاکستان ریلویز کے ایڈیشنل جنرل منیجر مکینک شاہد عزیز نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ تمام بوگیاں بالکل ٹھیک ہیں۔

شاہد عزیزکا کہنا تھا کہ” یہ بوگیاں پچیس سو کلو میٹر چلی ہیں، کراچی سے پشاور، پشاور سے پھر لاہور، لاہور سے فیصل آباد ، خانیوال ۔ ایسا کوئی ایشو نہیں ہے۔ “

انہوں نے جیو فیکٹ چیک کو ٹیلی فون پر بتایا کہ”جو گارڈ ہوتا ہے، وہ سب سے پچھلی بوگی میں ہوتا ہے ، اور اس کی یہ ڈیوٹی میں شامل ہے کہ اگر ٹرین میں کوئی ابنارملٹی ہو، فرض کیا کوئی ڈکیتی ہو رہی ہے یا آگ لگ گئی کسی کوچ میں ، تو اس [گارڈ] کے پاس یہ اختیار ہونا چاہیئے کہ وہ ٹرین کو روکے یا ڈرائیور کو انڈی کیشن دے سکے۔“

شاہد عزیز نے جیو فیکٹ چیک کو مزید بتایا کہ ”چائنیز نے جب اس کو سمجھا ، پھر انہوں نے سجیسٹ کیا (مشورہ دیا) کہ اس کا ایک پائپ ہے ، جو تقریباً سات ،آٹھ فُٹ کا ہے ، اس پائپ کا ڈایا میٹر کم ہے، وہ اگر ہم زیادہ ڈایا میٹر لگا دیں تو پھر یہ والا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ تو انہوں نے پھر اپنی موجودگی میں ، اپنے خرچے سےیہ پائپ ہر کوچ میں لگایا۔ “

پاکستان ریلوے کے ایک اور اہلکار، ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز بابر علی رضا نے بھی جیو فیکٹ چیک کو تصدیق کی کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبریں بے بنیاد ہیں ۔

گارڈ کوبریک کا اختیار دینے کے لیے صرف بوگی کے پائپوں میں تبدیلی کی گئی ہے۔

بابر علی رضا کا کہنا تھا کہ”سیدھی سی بات ہے کہ جب یہ بوگیاں آئی ہیں ، اس کے بعد ان کا ٹرائیل ہوا ہے ، کراچی سے لاہور آئی ہیں ٹرائل کے طور پہ۔ تو کراچی سے لاہور چل کے ہی آئی ہیں ، اُڑ کے تو نہیں آئیں۔ “

بابر علی رضا نے مزید بتایا کہ ” چین کے ساتھ یہ منصوبہ 230 ریلوے بوگیوں کا تھا جن میں سے 46 بوگیاں چین سے درآمد کی جانی تھیں۔ بقیہ 184 کو چین کی جانب سے ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کے بعدپاکستان میں ہی اسلام آباد کی کیرج فیکٹری میں بنایا جائے گا تاکہ زرمبادلہ کو بچایا جا سکے۔“

7 جنوری کو ایک پریس کانفرنس میں پاکستان ریلوے کے وزیرخواجہ سعد رفیق نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ سوشل میڈیا پر یہ تمام خبریں جھوٹی ہیں اور یہ کہ ان بوگیوں کو پاکستان بھیجنے سے پہلے چین میں بھی ٹیسٹ کیا گیا اور پھر پاکستانی ٹرین کی پٹریوں پر 2500 کلومیٹر تک چلا کر ان کا دوبارہ ٹیسٹ کیا گیا۔

انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں وہ پائپ بھی دکھائے جن کو تبدیل کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پائپس کی یہ تبدیلی چین نے اپنے خرچ پر کی ہے۔

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔