18 جنوری ، 2023
سابق وزیراعظم عمران خان کی ’’تحریک سے تحلیل‘‘ تک کی سیاست نے ایوانوں میں خاصی ہلچل تو پیدا کردی ہے، خاص طور پر پنجاب اور کے پی کے سیاسی گھرانوں میں، مگر خان صاحب اور پاکستان تحریک انصاف کے لئے سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
پورے صوبے بشمول کراچی میں ان کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ کپتان کی عدم دلچسپی اور پارٹی کی تنظیمی ناکامی ہے۔سندھ میں مجموعی طور پر ایک بار پھر پی پی پی نہ صرف بازی لے گئی بلکہ بلدیاتی تاریخ میں 1970کے بعد پہلی بار صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد اور میرپور خاص میں بھی ان کا مئیر منتخب ہونے کے روشن امکانات ہیں اور میرپور میں تو شاید پہلی بار کوئی اقلیتی رکن میئر منتخب ہوجائے اگر پی پی پی نے اسے نامزد کیا۔
اتوار کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے ہونے کا بھی آخری وقت تک کسی کو یقین نہیں تھا اور نہ ہی نتائج کے اتنی تاخیر سے اعلان ہونے کا، جس نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ میں نے کئی بار یہ سوالات اٹھائے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی فوج اورپولیس کی طرح پورا ایک ادارہ ہونا چاہئے جس کے ماتحت تمام عملہ ہونا چاہئے نہ کہ اسے صوبائی حکومت یا مقامی انتظامیہ کی مدد درکار ہو ورنہ ’’صاف و شفاف الیکشن‘‘ کی حسرت رہے گی۔
اب آتے ہیں سندھ کے دارالحکومت اور معاشی حب ’’کراچی‘‘ میں ہونے والے الیکشن اور اس کے نتائج پر۔ تصور کریں، 20فیصد سے بھی کم ٹرن آؤٹ کے نتائج پیر کو دوپہر تک بھی نہیں آئے تھے، اگر کہیں یہ ٹرن آؤٹ چالیس یا پچاس فیصد ہوتا تو کیا ہوتا؟ نتائج کی ترتیب کچھ اس طرح نظر آتی ہے۔ پہلے نمبر پر مایوس کن ٹرن آؤٹ، اس کی تین بنیادی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی سیاسی و انتخابی بے یقینی نہ صرف عوام میں بلکہ خود سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو بھی یقین نہیں تھا کہ صبح الیکشن ہیں کہ نہیں۔ دوسری وجہ ایم کیو ایم کے دو بڑے گروپس، ایم کیو ایم (لندن) اور ایم کیو ایم (پاکستان)کی بائیکاٹ کی اپیل اور تیسری وجہ خود لوگوں یا ووٹرز کی پورے نظام سے عدم دلچسپی اور مایوسی۔
ماضی کی متحدہ کو ایک طرف رکھ کر بھی سوچا جائے تو موجودہ ایم کیو ایم (پاکستان) کےمختلف دھڑوں کے پاس باہم ضم ہونے کا موقع 22اگست کے بعد بہت زیادہ تھے مگربوجوہ وقت ضائع کردیاگیا، ایم کیو ایم نے بھی، پاک سرزمین پارٹی نے بھی اور ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی، ورنہ یہ کام تو کامران ٹیسوری کے گورنر بننے سے پہلے بھی ہوسکتا تھا۔ اب بھی معاملات طے کرنے کے لئے کسی ’’فارم ہاؤس‘‘ میں جانا پڑتا ہے تو اللہ جانے نیوٹرل کی کیا تعریف ہے؟ایم کیو ایم نے پچھلے 6برسوں میں دو بنیادی غلطیاں کیں۔ ایک 2016میں بلدیاتی الیکشن جیتنے کے باوجود انتہائی مایوس کن کارکردگی اور دوسری 2018میں کسی سے ’’فیض یاب‘‘ ہونے کے بجائے باجوہ ڈاکٹرائن کے ساتھ جا کر پہلے پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت میں جانا اور پھر اس سے بڑی غلطی 2022میں ان سے اتحاد توڑنا۔
اس کا فائدہ جماعت اسلامی کو ہوا۔ وہ 2013 میں کراچی کے الیکشن کا اچانک اور معنی خیز بائیکاٹ کرکے پاکستان تحریک انصاف کو فائدہ پہنچا چکی تھی جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کو 8لاکھ ووٹ پڑا مگر جماعت کی خوش قسمتی کہ ایم کیو ایم کا یہ دوسرا بائیکاٹ ہے جس کی وجہ سے جماعت کے میئر کی راہیں کھلتی چلی گئیں اور انہیں کارکردگی دکھانے کا موقع ملا۔ پہلی بار 2001 میں جب متحدہ نے بائیکاٹ کیا تو نعمت اللہ صاحب مرحوم میئر بنے اور بہت بہتر کام کیا اور اب ایک بار پھر جماعت کے انتہائی متحرک کراچی کے امیر حافظ نعیم جنہوں نے دو سال تک ’’حق دو کراچی کو‘‘ کے نام سے بھرپور مہم چلائی، کو موقع ملنے کا امکان ہے۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں بھی عرض کی تھی کہ شہر بہت تباہ ہوچکا ہے بس اسے کم از کم پیدل چلنے والوں اور گاڑی چلانے والوں کے قابل بنا دیں تاکہ لوگ کسی ’’گٹر‘‘ میں غائب نہ ہوجائیں، کھڑے کھڑےلیٹ نہ جائیں۔
جماعت کے پاس تنظیم بھی ہے اور بلدیاتی الیکشن کا تجربہ بھی۔ اب اگر میئر حافظ نعیم صاحب بنتے ہیں تو ان کے سامنے آئندہ چند ماہ میں ہی ایک بہت بڑا چیلنج، گرمیوں میں بارشوں کا آنے والا ہے۔ ان دو تین ماہ میں کراچی کے سارے نالے صاف کرانا ہمیشہ سے ایک کٹھن مرحلہ رہا ہے۔ باقی تو درجنوں مافیاز کا مقابلہ ہے جس میں بہرحال وقت درکار ہے۔ ٹوٹی سڑکیں، تجاوزات اور منوں کچرا ایسے معاملات ہیں جن میں صرف انتظامی آرڈر اور عملدرآمد چاہئے۔ اگرجماعت اسلامی اور پی پی پی کی مشترکہ بلدیاتی حکومت بنتی ہے تو شاید دونوں کو سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے اور شہر کے لئے بھی شاید یہی بہتر ہو۔ پی پی پی اور سندھ حکومت کے پاس بھی سنہری موقع ہے شہری سندھ کے دل جیتنے کا، حیدرآباد کھنڈر بن چکا ہے، اسے بس کسی تفریق کے بغیر پرانا حیدرآباد بنا دیں اور میرپور خاص تو ویسے بھی ایک خوبصورت شہر ہے ۔اس وقت تو موقع ہے پورے سندھ اور یہاں کے باسیوں کو قریب لانے کا۔ دیکھتے ہیں آنے والے چار برسوں میں بلدیاتی ادارے بااختیار ہوتے ہیں یا بے اختیارہی رہتے ہیں۔
رہ گئی بات یہاں کی اپوزیشن کی تو پی ٹی آئی کے سامنے آنے والے عام انتخابات بھی ہیں۔ یہاں پارٹی کے جتنے لیڈرز ہیں کم و بیش اتنے ہی گروپس ہیں اور یہ سب اس وجہ سے بھی ہے کہ خود عمران خان کی سندھ میں بہت زیادہ دلچسپی نظر نہیں آتی۔
جہاں تک دیگر جماعتوں کا تعلق ہے تو میں حیران ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کے لئے تو شاید سندھ میں بلدیاتی الیکشن ہو ہی نہیں رہے تھے ورنہ یہاں ان کا ایک ووٹ بینک موجود ہے اور شاید اسی وجہ سے 2018 میں شہباز شریف یہاں سے الیکشن بھی لڑے تھے۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کی بھی کارکردگی مایوس کن رہی اور اب ایسا لگتا ہے کہ ’’پراجیکٹ تحریک لبیک‘‘ کو بھی خاص ’’سپورٹ‘‘ حاصل نہیں رہی۔بہرحال الیکشن ہارنے والوں اور بائیکاٹ کرنے والوں کے لئے ایک سبق اور جیتنے والوں کے لئے امتحان ہوتا ہے۔ یہ الیکشن خود الیکشن کمیشن کے لئے بھی ایک سبق ہے مگر سب سے اچھی بات یہ رہی کہ مجموعی طور پر حالات پرامن رہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پنجاب اور کے پی میں 90روز میں الیکشن ہونے والے ہیں ’’سیاسی منڈیاں‘‘ سج گئی ہیں، الیکشن اپریل میں ہی ہونے ہیں، ویسے بھی جو پنجاب جیتا تو وہ مرکزی الیکشن پہلے ہی آدھاجیت جائے گا۔ اس کا ادراک پی ڈی ایم کو ہوجائے تو ہی بات بنتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔