بلاگ
Time 27 جنوری ، 2023

فواد چوہدری کی شکر گزاری

بغاوت کے مقدمے میں فواد چوہدری گرفتار کر لئے گئے اورعدالت نے شاید باغیانہ خیالات کی برآمدگی کیلئے دوروزہ جسمانی ریمانڈمنظورکیا جس کے بعد پولیس نے انہیں تھانہ سی ٹی ڈی منتقل کردیا۔جہاں دہشت گردوں کو رکھا جاتا ہے ۔

اس موقع پر فواد چوہدری نے کہا کہ میں شکر اداکرتا ہوں کہ مجھ پر بھی وہی مقدمہ درج کیا گیا ہے جو ابوالکلام آزاد اور نیلسن میڈیلا جیسے بڑے رہنماؤں پر کیا گیاتھا ۔ابوالکلام آزاد نے عدالت میں جو اپنا تاریخی بیان دیا تھا ،اس کے چند جملے درج کرتا ہوں ۔’’جب کبھی حکمراں طاقتوں نے آزادی اور حق کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے۔ عدالت کا اختیار ایک طاقت ہے اور وہ انصاف اور نا انصافی، دونوں کیلئے استعمال کی جا سکتی ہے۔ تاریخِ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں۔ دنیا کے مقدس بانیانِ مذہب سے سائنس کے محققین اور مکتشفین تک، کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو۔‘‘

عدالت کی نا انصافیوں کی فہرست بڑی ہی طویل ہے۔ تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہو سکی۔ ہم کو اس میں سقراط نظر آتا ہے، جس کو صرف اس لئے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے زیادہ سچا انسان تھا۔ ہم کو اس میں فلورنس کے فدا کارِ حقیقت گلیلیو کا نام بھی ملتا ہے، جو اپنی معلومات و مشاہدات کو اس لئے جھٹلا نہ سکا کہ وقت کی عدالت کے نزدیک ان کا اظہار جرم تھا۔ تاہم یہ مجرموں کا کٹہرا کیسی عجیب مگر عظیم الشان جگہ ہے جہاں سب سے اچھے اور سب سے بُرے، دونوں طرح کے آدمی کھڑے کئے جاتے ہیں؟

فواد چوہدری کے حوالے سے میں نے ایک کالم میں لکھا ۔ ’’کالم شروع کرتے ہیں فواد چوہدری کے دادا سے۔ ان کا نام چوہدری محمد اویس تھا۔انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز سر چھوٹو رام کی قیادت میں کیا۔وہ بڑے عوامی اور انقلابی آدمی تھے۔ غریبوں اور کسانوں کے ساتھی تھے۔چوہدری ہونے کے باوجود ان کا دل عام لوگوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ 

ہندو بنیے اور سود کے سخت مخالف تھے۔ جب چھوٹو رام نے 1925میں ہندو بنیے کے خلاف کسان تحریک شروع کی تھی تو چوہدری محمد اویس ان کی تحریک کے سرگرم رکن بن گئے۔چوہدری محمد اویس زیادہ دیر چھوٹو رام کے ساتھ نہیں رہے۔وہ 1926ء میں مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ 1946 میں ڈسٹرکٹ بورڈ جہلم کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگ کے ضلعی صدر رہے۔ان کے چار بیٹے تھے ، افتخار حسین چوہدری۔ ( چیف جسٹس رہے)،جاوید حسین چوہدری، الطاف حسین چوہدری ( دومرتبہ گورنر پنجاب رہے ) نسیم حسین چوہدری ،یہ فواد چوہدری کے والد گرامی تھے۔ اس خاندان نے پہلے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کااور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کا بھرپور ساتھ دیا۔ کہتے ہیں فواد چوہدری اپنےداد ا کی کاپی ہیں۔ انہی جیسا دل و دماغ رکھتے ہیں‘‘۔

جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تھی اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیلئے مختلف نام لئے جارہے تھے تو میں نے فواد چوہدری کا نام لیا تھا ۔ان کے بارے میں لکھا تھا ۔ ’ وہ ہنوزجوان بھی ہیں اورشباب بھی بے داغ ہے یعنی کسی طرح کا کوئی الزام بھی نہیں ہے ۔ضرب بھی کاری لگاتے ہیں ۔جیسی ضلع جہلم میں لگائی ۔کلین سوئپ فتح حاصل کی۔میرے خیال میں فواد چوہدری میں پنجاب میں تبدیلی لانے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے ۔

کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ فواد چوہدری ابھی نوجوان ہیں (اس لئے انہیں وزیر اعلیٰ نہ بنایا جائے )تو وہ اتنے نوجوان بھی نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب وزیر اعظم بنی تھیں تو اُن کی عمراس وقت فوادچوہدری سے بھی کم نہیں تھی۔نواز شریف بھی جب پہلی بار وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تھے تو اُس وقت فواد چوہدری سے عمر میں چھوٹے تھے ۔‘‘بہر حال عمران خان نے فواد چوہدری کی بجائے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنایا اور ہم سب نے بزدار کا بھرپور ساتھ دیا۔میرے نزدیک عثمان بزدار سے بہتر وزیر اعلیٰ کبھی پنجاب کے حصے میں نہیں آیا۔باقی مخالفین تو سورج کو بھی سیاہ گولا قرار دیتے ہیں۔

اس وقت فواد چوہدری کوترجمان پی ٹی آئی ہونے کی حیثیت سےالیکشن کمیشن کو منشی کہنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔یہ گرفتاری ایک ٹیسٹ ہے پاکستانی عوام کا ۔تھرما میٹر لگایا گیا ہے کہ ٹمپریچر کتنا ہے لیکن اس گرفتاری سے فواد چوہدری کی سیاسی قامت بہت بلند ہوئی ہے۔چونکہ فواد چوہدری جہلم سے ایم این اے تھے ان کے حلقے کےستر اسی فیصد ووٹروں کا تعلق افواج پاکستان کی فیملیز سے ہے اس لئے زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ فواد چوہدری اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں ۔وہ ان کی مرضی کے خلاف نہیں جا سکتے مگر ان کی گرفتاری نے یہ بات واضح کردی ہے کہ وہ صرف اور صرف پی ٹی آئی کے لیڈر ہیں۔ عمران خان کے آدمی ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ کے نہیں ۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ فواد کی گرفتاری درست نہیں ہمیں ایساکام نہیں کرنا چاہئے۔یعنی ن لیگ نے تسلیم کیا ہے یہ کام ہم نے کرایا ہے۔سعد رفیق کا بھی تبصرہ ملا جلا تھا۔تمام تجز یہ کاروں نےواضح طور پر کہا کہ اس حکومتی عمل کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔