28 جنوری ، 2023
''میں روز تیس کلو میٹر کا ایک طرف کا سفر طے کرتی ہوں گھر سے آفس اور پھر واپس تیس کلو میٹر آفس سے گھر ۔تین ویگنیں بدلتی ہوں ۔گرمی ہو یا سردی میرا ایک ہی معمول ہے۔''
اسلام آباد ایکسپریس وے کے ایک مخصوص بس اسٹاپ پر بہت رش تھا ۔شاید کوئی احتجاج ہو رہا تھا پبلک ٹرانسپورٹ کا دور دور تک نشان نہیں تھا اور جو گاڑیاں دستیاب تھیں وہ منہ مانگہ کرایہ وصول کرنا چاہتی تھیں۔۔۔اپنے بیگ کا ہینڈل مضبوطی سے تھامے دوسرے ہاتھ سے دوپٹے کو کس کر لپیٹے ہوئے اس کی نظریں گاڑی کی تلاش میں مصروف تھیں اور ساتھ ہی گفتگو بھی جاری تھی ۔''اب دیکھیں نا آفس جا کر بتاؤں گی کہ اس لیے لیٹ ہو گئی کہ گاڑی نہیں مل رہی تھی تو معلوم ہے کہ جواب کیا ملے گا !
جواب ملے گا کہ چھوڑو تمھیں کیا ضرورت ہے اتنی خواری کی ۔شوہر کو کمانے دو یہ اس کی ذمے داری ہے ۔تمھاری نہیں ہے ۔''سوال کرنے والوں کووہ جواب کیا دیتی ہے میں ابھی سننے کی منتظر ہی تھی کہ ایک گاڑی میں سے کسی نے آواز لگائی'' بلیو ایریا بلیو ایریا جانا ہے کسی نے 400 روپے میں'' ۔۔۔اور وہ اس آواز کی طرف لپک گئی لیکن اس کی خود کلامی جیسی بات پیچھے میری دل و دماغ میں گونجتی رہ گئی ۔
ذّمے داری کس کی ہے کس کی نہیں ۔کیا یہ سوال کسی بھی خاتون سے پوچھنااتنا ضروری ہے! اسی جواب کو کھوجنے کے لیے میں نے کئی خواتین سے بات کی ۔میرے آس پاس ، راستے میں کئی خواتین مجھے ملیں جو نوکری کرتی ہیں اور یہ بالکل ان کا ذاتی مسئلہ ہے کہ وہ ان پیسوں سے کرتی کیا ہیں لیکن انھیں اس سوال اور روئیے کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے ۔
ڈاکٹر عائشہ ایک پرائیویٹ ہاسپٹل میں بطور ٹرینی سائیکائٹرسٹ کے جاب کر رہی ہیں وہ کہتی ہیں کہ'' اسٹاف کی جانب سے فرمائشی پروگرام چلنا توروز کی بات ہے، میڈم ایسا کریں آج تو آپ سموسے کھلا دیں ۔۔۔میم ایسا کریں آ ج ایک کولڈ ڈرنک نہ ہو جائے ۔انھیں لگتا ہے کہ شاید میں بہت زیادہ کماتی ہوں ایسے ہی ایک دن میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ بھئی میری اتنی تنخواہ نہیں ہے توجواب اتنی ہی سنجیدگی سے ملا کہ میڈم آپ کو تنخواہ کی کیا ضرورت ہے یہ تو آپ کی پاکٹ منی ہے ۔
میں نے پوچھا کہ پھر جواب کیا ہوتا ہے ، میں بس مسکر اکر خاموش ہو جاتی ہوں کہ اب کیا بتایا جائے کہ میں ان پیسوں کا کیا کرتی ہوں۔''
فاطمہ شہزاد ایک ادارے میں گرافک ڈیزائنر ہیں ۔۔۔وہ اس سوال پر اتنا ہنسیں کہ مجھے شائبہ ہوا کہ شاید میں نے کوئی غیر سنجیدہ سوال پوچھ لیا ہے ۔فاطمہ کا کہنا تھا کہ ان کی صورت حال تو بہت ہی مشکل ہے کیوں کہ اپنے رہن سہن سے لوگوں کو وہ امیر خاتون دکھائی دیتی ہیں ۔انھیں کچھ ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں،'' ارے آپ تو رہنے ہی دیجیے کیوں کر رہی ہیں نوکری ۔اتنے مہنگے کپڑے اور اتنے مہنگے بیگ پھر ذاتی گاڑی بھی رکھی ہوئی ہے توکیوں ایک سیٹ ضائع کر رہی ہیں کسی آدمی کا حق مار رہی ہیں جسے ایک گھر چلانا ہوتا ہے ۔''
فاطمہ کہتی ہیں کہ ان باتوں پر ایک گہری سانس ہی بھری جاسکتی ہے ، غصہ بھی بہت آتا ہے لیکن کبھی کبھار جواب دے ہی دیتی ہوں۔میں یہ سب اس لیے کرتی ہوں تا کہ میں اپنے گھر والوں پر بوجھ نہ بنوں اور اپنی ضروریات خود پوری کر کے گھر پر بھی اپنا حصہ ڈال سکوں اور سب سے بڑھ کر یہ کسی کا بھی مسئلہ نہیں ہے۔''
زینت خان اسلام آباد کے ایک مال کی سیکیورٹی انچارج ہیں۔سوال سن کر دھیمی سی مسکراہٹ سنجیدگی میں تبدیل ہو گئی۔ کہنے لگیں کہ'' یہ تو عمومی رویہ ہے ۔میں نے جب بھی سیلری بڑھانے کی بات کی تو جواب ملا کہ دیکھیں آپ پہلے سے ہی اتنی تنخوا لے رہی ہیں آپ کو کیا ضرورت ہے ۔میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ اپنی ضرورت جانتی ہوں ۔مجھے لیکچر نہیں تنخواہ میں اضافہ چاہیے ۔کام برا بر کا کرتی ہوں تو حقوق بھی برا بر کے چاہیے۔''لیکن میری سمجھ سے باہر ہے کہ لوگوں کو اس سوال کا جواب چاہیے ہی کیوں کہ میں نوکری کیوں کر رہی ہوں۔۔بس انھیں سوال کرنا ہوتا ہے ۔۔۔''
صاعقہ صبغت اللہ پرائیویٹ یونی ورسٹی میںشعبہ بین الاقوامی تعلقات میں ریسرچ ایسو سی ایٹ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں تو ابھی کوئی مستقل جاب بھی نہیں کر رہی لیکن پھر بھی اسٹاف یا ساتھ کام کرنے والے یا رشتے دار مجھے کسی بھی مشکل اسائنمنٹ میں ٹائم صرف کرتے ہوئے یا کتابوں میں سر دبائے دیکھتے ہیں تو اپنی رائے دینا فرض سمجھتے ہیں کہ کیوں اپنی جان کھپاتی ہیں ۔ابھی ابو کے پیسوں پر عیش کیجیے بعد میں شوہر کو کمانے دیجیے ۔آپ کے تو مزے ہیں ۔خود کو کیوں مشکل میں ڈال رہی ہیں ۔مشکل تو ہم مردوں کے لیے ہے ۔خواتین ہوتی ہیں تو کہتی ہیں کہ جب ذمے داریاں نہیں ہیں تو جان بوجھ کر کیوں گلے میں نوکری کا طوق ڈال رہی ہو۔۔۔اب انھیں کون سمجھائے کہ کچھ کر دکھانے کا خیال ، شوق ، اپنی صلاحیتوں کا استعمال یہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔۔۔میرے پاس تو جواب دینے کا وقت نہیں ہوتا اور جواب دینے کا مطلب مزید سوالات ۔۔۔
کنول عاصم ایک نجی ادارے میں ایچ آر کے شعبے سے وابستہ ہیں وہ کہتی ہیں کہ ''موضوع تو بہت بحث طلب ہے لیکن ایک خا تون ہو کر آپ نوکری کیوں کرتی ہیں صرف اس سوال کا لیول ہی کچھ الگ ہے۔ ۔۔پتہ نہیں لوگ اس سوال کے جواب میں کیا سننا چاہتے ہیں ۔آپ کی مجبوریوں کے قصے یا پھر آپ شوق کی داستان ۔در اصل گھر چلانا ، ذمے داریاں اٹھانا ہمارے معاشرے میں صرف مرد کی ذمے داری سمجھا جاتا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے ۔معاشرتی نظام کافی تک تبدیل ہو چکا ہے ۔خواتین کو کرنا پڑتا ہے ۔یا تو وہ گھر بیٹھ کر شکایتیں کرتی رہیں یا اپنے گھر والوں کو دباو میں رکھیں یا پھر اپنا حصہ ڈالیں اور ہوبھی یہ رہا ہے ۔میرے خیال میں میری ذاتی سرکل میں تو کوئی لڑکی ایسی نہیں ہے تو شوقیہ جاب کر رہی ہواگر کوئی کر بھی رہی ہے تو اس میں مسئلہ کیا ہے ۔''
شبینہ ناز اسلام آباد کے پوش علاقے میں کپڑوں کا چھوٹا سا کاروبار چلا رہی ہیں اور ساتھ ہی ای کامرس کی مختلف ویب سائٹس سے اپنا اور کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر کام بھی کر رہی ہیں سوال سن کر کہنے لگیں لوگ پتا نہیں کہاں سے اتنا وقت نکالتے ہیں اس طرح کے سوالات کے لیے ۔ہمارے ہاں عور ت کا جاب کرنااس کام اپنا ذاتی کاروبار کرنا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے ۔شوہر جتنا کمائے اس میں گزارا کرنا سیکھو۔چادر دیکھ کر پاوں پھیلاو بچوں کو سمجھا و کہ ہمیں بس اتنے میں ہی رہنا ہے ۔
میرا کہنا یہ ہے کہ جب ایک عورت کام کر سکتی ہے نوکری کر سکتی ہے تو کیوں نہ کرے ۔جس سے اس کا گھر چل سکتا ہو ۔جس سے وہ چھوٹی چھوٹی ہی سہی ، اپنی ، اپنے گھر والوں کی خوشیاں پوری کرنے کی اہل ہو سکے ۔میں خواتین کے نوکری کر نے کے حق میں نہیں ہوں لیکن کبھی کبھار وقت ایسے دوراہے پر لے آتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی عزت والا راستہ بچتا نہیں ہے ۔اپنی جاب سے ، اپنے پیسے سے وہ کرتی کیا ہیں یہ کسی کے بھی سوال کرنے یا سوچنے کا معاملہ ہے ہی نہیں ۔جیسے ہم کسی مرد سے سوال نہیں کرتے کہ بھئی ان پیسوں کا کرتے کیا ہو ۔کیا کیا ذمے داریاں ہیں بیگم کتنا کما لیتی ہیں ۔مرد چاہے تو
ایک کی بجائے دو نوکریاں کرے ،پارٹ ٹائم کرے کوئی سوال نہیں کرتا الٹا اس کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے کہ لو جی واہ اپنے گھر اپنے خاندان کے لیے کتنا کچھ کر رہا ہے ۔اب اس کے بدلے میں چاہے وہ خوش ہونا بھول چکا ہو کوئی بیماری لگوا چکا ہو لیکن اسے عظمت کے اس مینارے پر ٹنگے رہنا ہے ۔
شمائلہ امجد سرکاری بینک میں مینجر کی پوسٹ پر کام کرتی ہیں ۔وہ کہتی ہیں کہ ہم اور ہمارے والدیں تو بچپن سے ہی سوالات کی زد میں ہیں ۔بھائی نہیں ہے ہائے کیا کرو گی ، بیٹا نہیں ہائے کیا ہوگا۔تو اس ہائے ہائے نے ہمارا پیچھا آج تک نہیں چھوڑا۔ ہم پانچ بہنیں ہیں شروع سے ہی خواہش تھی کہ ماں باپ کے لیے وہ کچھ کرنا جو انھوں نے ہمارے لیے کیا ہے ۔۔۔ایک قدم آگے بڑھ کر کرنا ہے ۔ہماری تعلیم پر بھی لوگ یہی سوال کرتے تھے کہ کیا کرتے ہیں مرزا صاحب کون سا انھوں نے نوکری کرنی ہے جو پڑھیں گی اتنی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کریں گی ۔ابو کا کہنا یہی ہوتا تھا کہ میرا کام ہے انھیں زیور سے آراستہ کرنا بقیہ اس زیور سے کرنا کیا ہے وہ یہ جانیں یا ان کی قسمت ۔
آج ہم پانچوں بہنیں جاب کرتی ہیںوالدین کے ہر طرح سے کام آتی ہیں جو شادی شدہ ہیں وہ بھی اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔میرے والدین خوش ہیں لیکن لوگوں کا کہنا پھر بھی یہی ہے کہ ہائے مرزا صاحب بیٹا ہوتا تو بیٹیوں کی کمائی نہ کھانی پڑتی ۔
خدیجہ قادر لیکچرار ہیں اور مختلف جامعات میں وزٹنگ فیکلٹی کے فرا ئض سر انجام دے رہی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ میں ایک نہیں دوبلکہ اس سے بھی زیادہ جابس کرتی ہوں ، ساتھ میں فری لانسنگ بھی کرتی ہوں ۔مجھ سے بھی لوگوں کا سوال یہی ہوتا تھا کہ میں تو ایک اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں پھر مجھے نوکری کی کیا ضرورت ۔میں ایک لمحہ رکتی تھی ۔پھر کہتی تھی کہ مجھے بھی آپ منیر یا شبیر یا قادر کچھ بھی سمجھ لیں ۔میں ہی اپنے بچوں کی ماں ہو ں اور میں ہی باپ ۔اور میں اسے مجبوری سمجھ کر نہیں کرتی ۔۔۔ذمے داری سمجھ کر بہت دل سے کرتی ہوں ۔عمر کے ساتھ ساتھ اب سوال بدل گیا ہے کہ بیٹا کمانے کی عمر تک پہنچنے والا ہے اب تو بس گھر بیٹھیے گا اور بیٹے کی کمائی کھائیے گا ،دل میں تو آتا ہے کہ جواب دوں کہ ہے بل گیٹس کے بعد میرے بیٹے کو تو ہی تو اس کاروبار سنبھالنا ہے نا !
یہ تو صرف چندخواتین سے گفتگو کا احوال ہے ۔ان کی علاوہ بھی میں نے کئی خواتین سے بات کی ۔جو میٹرو میں سفر کر رہی تھیں ، پبلک واش رومز کی صفائی میں مشغول تھیں ، ائیر کنڈیشنز کمروں میں کسی بڑے منصب پر فائز تھیں ، یونی فارم میں ملبوس ملک و قوم کی خدمت کا فریضہ سر انجام دے رہی تھیںیا پھر صحافت جیسے میدان میں اپنی صلاحیتیں دکھا ئی رہی تھیں ۔۔۔۔
سمجھ میں یہ آیا کہ کسی ایک مخصوص طبقے ، مخصوص شعبے سے وابستہ اور مخصوص عمر کی خواتین کو ان سوالات کا سامنا نہیں ہے بلکہ سب کو کسی نہ کسی مرحلے پر ، کسی نہ کسی شکل میں اسی طرح کے سوالات کا سامنا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی خواتین کی معاشی ذمے داریاں اٹھانے یا ان میں حصہ ڈالنے کی بات کی جاتی ہے ، لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ نوکری کے لیے دلائل دے رہیں ہیں کہ لڑکیوں کا نوکری کرنا ضروری ہے ۔مانا کہ ان سے جڑے کئی مسائل بھی ہیں لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو خواتین نوکری کر رہی ہیں یا اپنا ذاتی کاروبار کر رہی ہیں انھیں کرنے دیجیے اور جو نہیں کر رہیں ان سے بھی سوال مت کیجیے کہ وہ کیوں نہیں کر رہیں ۔یہ شخصی آذادی کا معاملہ ہے ۔چھوڑ دیجیے سوال کرنا۔۔۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔