بلاگ
Time 31 جنوری ، 2023

سندھ طاس معاہدہ اور بھارتی آبی جارحیت

پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے مستقل حل کیلئے 1948ء میں مذاکرات شروع ہوئے تھے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سےان میں بار بار تعطل پیدا ہوتا رہا اور یوں یہ معاملہ مستقل بنیادوں پر حل ہونے میں تاخیر ہوتی رہی۔ چونکہ یہ انتہائی اہم اور حساس معاملہ تھا اور اس کا حل نہ ہونا دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا سبب بن سکتا تھااسی لیے صورتحال کو دیکھتے ہوئے عالمی بینک نے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوششیں شروع کیں اور آخرکار 1960ء میں ’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ کی صورت میں یہ معاملہ مستقل بنیادوں پر حل ہوگیا۔

اس معاہدے کے مطابق تین مغربی دریاؤں دریائے جہلم، دریائے سندھ اور دریائے چناب کے 80 فیصد پانی پرپاکستان کا حق قرار پایا۔ اس حق کو بھارت نے باقاعدہ تسلیم کیا۔ معاہدے کے مطابق بھارت کا دریائے سندھ کا 20 فیصد پانی اور تین مشرقی دریاؤں کا پانی استعمال کرنے کا حق تسلیم کیا گیا۔ اس معاہدے پر اس وقت کے صدر ِپاکستان ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے دستخط کئے۔ 

اس معاہدے میں یہ شق بھی شامل ہے کہ پاکستان تین مشرقی دریاؤں کے پانی کو بھی بوقت ضرورت استعمال کرسکے گا لیکن افسوس کہ بھارت اس معاہدے پر عملدرآمد کرنے کے بجائے وقتا فوقتاً پاکستان کے پانی کی حسب معاہدہ ترسیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے لگا۔ بھارت کے اس منفی طرز عمل سے پاکستان کی زرعی پیداوار اس حد تک متاثر ہوئی کہ قحط کا خطرہ پیدا ہوگیا۔

پاکستان نے بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے زرعی پیداوار کی قلت کے خطرے کے پیش نظر اس کی کڑی شرائط کو بھی قبول کیا لیکن کچھ ہی عرصہ میں بھارت پھر اپنی پرانی روش پر آگیا اور پاکستان کے پانی کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کردیں جبکہ سیلابی صورتحال کے دوران بھارت پاکستان کی جانب سیلابی پانی بھیجتا ہے ،جس سے پاکستان میں کھڑی فصلوں، مال مویشیوں اور اجناس کو بڑے پیمانے پر ہر سال نقصان پہنچتا رہتا ہے جبکہ عام حالات میں بھارت غاصبانہ طور پر اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان آنے والے دریائی پانی کو روک لیتا ہے۔ بھارت کی اس بدمعاشی اور منافقانہ طرز عمل سے پاکستان کی زرعی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے اور اب تک لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی بنجر ہو چکی ہے۔

بھارت نے آبی جارحیت اور سندھ طاس معاہدے کی مکمل خلاف ورزی 1999ء میں کی جب دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم کی تعمیر شروع کردی۔ آپ اندازہ لگائیں کہ بھارت کی اس آبی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کی 67 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی کو پانی سے محروم کر دیا گیا۔

 واضح رہے کہ دریائے چناب سے پاکستان کو سالانہ تقریباً 92لاکھ ایکڑ اراضی سیراب کرنے کی ضرورت ہے اور یہ پاکستان کا بھارت کے ساتھ مذکورہ معاہدے کے تحت حق بھی ہے لیکن بگلیہار ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے دریائے چناب سے پاکستان کی صرف 25لاکھ ایکڑ اراضی مشکل سے سیراب ہونے لگی۔ اس بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان نے پرزور احتجاج کیا جس پر پاک بھارت کے درمیان متعدد بار مذاکرات ہوئے، مذاکرات کا یہ دور 1999ء سے 2004ء تک چلتا رہا لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ مذاکرات بے نتیجہ رہے۔

 آخرکار 18اپریل 2005ء کو پاکستان نے عالمی بینک کو صورتحال سے آگاہ کیا اور عالمی بینک کی ثالثی سے طے پانے والے سندھ طاس معاہدہ کے آرٹیکل 9 کی شق2کا حوالہ دیتے ہوئے فوری طورپر غیر جانبدار عالمی ماہرین کا تقرر کرنے کی درخواست کی تا کہ یہ مسئلہ حل ہو سکے۔ اس پر عالمی بینک کی مقرر کردہ ٹیم نے دوسال کے بعد یعنی 2007ء میں بعض شرائط کے ساتھ بھارت کو بگلیہار ڈیم بنانے کی اجازت دے دی۔ بھارت نے اسی سال اس فیصلے کے بعد کشن گنگا ڈیم کی تعمیر بھی شروع کر دی اور یوں یہ ڈیم بھی تعمیر ہوگیا۔

 اس وقت بھارتی آبی جارحیت کی وجہ سے پاکستان زرعی حوالے سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے جبکہ بھارت نے بگلیہار اور کشن گنگا ڈیموں کےبعد راتلے پراجیکٹ کی تعمیر بھی تقریباً مکمل کرلی ہے۔ بگلیہار، کشن گنگا اور راتلے ڈیمز دریائے چناب اور دریائے جہلم پر تعمیر کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کا پانی روک دیا گیا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ صرف کشن گنگا ڈیم جو 330 میگا واٹ کا منصوبہ ہے اس سے پاکستان کے نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ ایک ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کا حامل ہے۔

اس خطرناک صورتحال، بھارتی بدمعاشی اور آبی جارحیت کے خلاف پاکستان نے ہیگ کی عالمی عدالت سے رجوع کیا ہے۔ اب بھارت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ عالمی بینک نے پاکستان کی درخواست پر غیر جانبدار ماہر کے تقرر کی کارروائی شروع کی ہے تو پھر پاکستان نے اسی دوران ہیگ کی عدالت سے رجوع کرکے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ بھارتی مؤقف کے مطابق ثالثی اور عدالتی کارروائی بیک وقت نہیں ہوسکتی۔

 بھارت نہ تو سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد کرتا ہے نہ ہی ایسی ثالثی یا فیصلے کو قبول کرنے کو تیار ہے جس کے تحت پاکستان کو اس کا تسلیم شدہ آبی حق مل جائے، دوسری طرف پاکستان کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ اب وقت آگیاہے کہ عالمی سطح پر اس تنازع کو مستقل بنیادوں پر حل کر کے پاکستان کو اس کا آبی حق دلایا جائے ورنہ یہ تنازع خطے میں سنگین کشیدگی پیدا کر سکتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔