آئی ایم ایف وفد کے دورے سے پہلے ٹیکسوں کی بھرمار کرنے کی تیاری

31 جنوری سے 9 فروری تک جاری رہنے والے آئی ایم ایف وفد سے مذاکرات میں طے ہوگا کہ کتنے نئے ٹیکس لگائے جائیں اور کتنے نان ٹیکس اقدامات کیے جائیں/ فائل فوٹو
31 جنوری سے 9 فروری تک جاری رہنے والے آئی ایم ایف وفد سے مذاکرات میں طے ہوگا کہ کتنے نئے ٹیکس لگائے جائیں اور کتنے نان ٹیکس اقدامات کیے جائیں/ فائل فوٹو

اسلام آباد: آئی ایم ایف وفد کے دورے سے پہلے حکومت نے بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے 200 سے 600 ارب روپے تک کے اضافی ٹیکس لگانے کی تیاری کر لی ۔

31 جنوری سے 9 فروری تک جاری رہنے والے آئی ایم ایف وفد سے مذاکرات میں طے ہوگا کہ کتنے نئے ٹیکس لگائے جائیں اور کتنے نان ٹیکس اقدامات کیے جائیں۔

بجٹ میں اعلان کردہ فیصلوں کے مطابق بجٹ خسارہ 4.9 فیصد اور پرائمری خسارہ جی ڈی پی کا 0.2 فیصد رکھنے کا وعدہ پورا کیا جائے، برآمدی شعبے کو 110ارب روپے کا استثنیٰ ختم کیا جائے۔

ایف بی آر کی طرف سے 7470روپے ٹیکس وصولیوں کا ہدف ہر حال میں پورا کیا جائے،گردشی قرض میں خاطر خواہ کمی لائی جائے،  پیٹرولیم لیوی کی مد میں 855 ارب روپے وصولی کا ہدف پورا کیا جائے، ریاستی کمپنیوں کی کارکردگی بہتر کرکے ان کا خسارہ ختم کیا جائے اور نجکاری پروگرام پر عمل درآمد کیا جائے۔

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مارکیٹ کے مطابق کرنے اور پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کے مطالبات پور ے ہو چکے، ڈیزل پر لیوی 40 روپے فی لیٹر کر دی گئی، اگلے ماہ اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔

حکومت کی درخواست پر 31جنوری سے شروع ہونے والے آئی ایم ایف وفد کے دورے  کے دوران طے ہو گا کہ کس حد تک ان پر عمل درآمد ہو گا۔

یہ دورہ پاکستان کیلئے اس لحاظ سے مشکل ہو گا کہ آئی ایم ایف کے مطالبات کو ماننا بہت مشکل ہے جب کہ پاکستان ان پر عمل درآمد کرنے کی پوزیشن میں نہیں لیکن مطالبات نہ ماننے کی صورت میں پاکستان کو انتہائی برے مالی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کی بحالی کیلئے متعدد اقدامات کا مطالبہ کر رکھا ہے، پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے ہر حال میں آئی ایم ایف پروگرام بحال کروانا ہے۔

مزید خبریں :