بچوں کے ہاتھوں میں اکثر اسمارٹ فون دینے کا نقصان جان لیں

یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو

اپنے کاموں یا مصروفیت کے دوران بچوں کو خاموش یا ایک جگہ تک محدود رکھنے کے لیے انہیں اسمارٹ فون یا ٹیبلیٹ دے دیتے ہیں؟

اگر ہاں تو آپ کی یہ عادت مستقبل میں بچوں کی تعلیمی قابلیت اور جذباتی شخصیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

یہ بات سنگاپور میں ہونےو الی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بچپن میں اسکرینوں کے سامنے زیادہ وقت گزارنے اور 9 سال کی عمر میں ناقص دماغی افعال کے درمیان تعلق موجود ہے۔

تحقیق کے مطابق اسکرینوں کے سامنے زیادہ وقت گزارنے سے منصوبہ بندی کرنے، توجہ مرکوز کرنے، ہدایات کو یاد رکھنے اور ایک سے دوسرے کام کے درمیان آسانی سے سوئچ کرنے کی صلاحیت جیسے دماغی افعال متاثر ہوتے ہیں۔

یہ دماغی افعال جذبات کو کنٹرول کرنے، کچھ نیا سیکھنے، تعلیمی کامیابیوں اور دماغی صحت کے لیے اہم ہوتے ہیں۔

اس تحقیق کے دوران 437 بچوں کے ای ای جی اسکینز کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

ان بچوں کے ذہنی افعال کا جائزہ پہلے ایک سال کی عمر میں لیا گیا، جس کے بعد 18 ماہ اور پھر 9 سال کی عمر میں جانچ پڑتال کی گئی۔

والدین نے ہر بچے کے اسکرین کے سامنے گزارے جانے والے وقت کو رپورٹ کیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ بچپن میں اسکرین کے سامنے گزارے جانے والے وقت اور 9 سال کی عمر میں دماغی افعال کے درمیان تعلق موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ تصدیق ہوسکے کہ اسمارٹ فونز کا زیادہ استعمال بچوں کے دماغی افعال کو کس حد تک نقصان پہنچاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ دماغی افعال سماجی، تعلیمی اور عملی زندگی میں کامیابی پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ان سے ہی ہم اپنا خیال رکھنا بھی سیکھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ذہنی افعال کی نشوونما قدرتی طور پر بچپن سے بلوغت تک ہوتی ہے مگر روزمرہ کی زندگی کے تجربات سے ان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بچپن میں اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنے سے بچوں کو حقیقی دنیا سے سیکھنے کا موقع نہیں ملتا۔

انہوں نے کہا کہ بالغ افراد سے رابطوں اور ان کی تعلیمات کا کوئی متبادل موجود نہیں۔

ماہرین کے مطابق اس عادت کے نتیجے میں بچوں کے لیے حقیقی اور فرضی دنیا میں فرق کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل جاما پیڈیا ٹرکس (JAMA Pediatrics) میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :