بلاگ
Time 10 فروری ، 2023

زلزلے کی پیشن گوئی

زلزلے میں پندرہ ہزار اموات پر سائنس نے چپ سادھ رکھی ہے۔سائنس ابھی تک اتنی ترقی نہیں کر سکی کہ زلزلے کی اطلاع اس کی آمد سے پہلے فراہم کر سکے ۔پہلی بار یہ ہوا کہ ایک سولر سسٹم جیومیٹری کے ماہر فرینک ہوگربیٹس نےتین دن پہلے یعنی تین فروری کوٹویٹ کیاکہ فوری طور پر یا کچھ دنوں بعد7.5شدت کا ایک زلزلہ ترکی، اردن، شام، اور لبنان میں تباہی مچا دے گا ۔

جس کے سبب زلزلوں کے متعلق پیشن گوئیاں کرنے والے سائنس دان سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔فرینک ہوگربیٹس نےکہا ہے کہ باقاعدگی سے سیاروں کی پوزیشنز کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کس علاقے میں ارضیاتی سرگرمیوں کا امکان ہے۔

میرے لڑکپن کے دوست نذیر یاد بھی اکثر ستاروں کو دیکھ کر پیشن گوئیاں کرتے رہتے ہیں مگر ان کے دادا کا ایک واقعہ میانوالی میں بہت مشہور ہے کہ 1935 میں ایک شام انہوں نے تمام احباب اور گھرو الوں سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو اور گناہوں کی معافی مانگو ۔ممکن ہے ہماری دعاؤں سے آنے والی قدرتی آفت ٹل جائے ۔صبح پتہ چلا کہ رات تین بجے کوئٹہ میں زلزلہ آیا ہے اور تمام شہر زمین بوس ہوگیا ہے ۔ میں ان دونوں واقعات کو آپس میں جوڑ کر سوچ رہا ہوں کہ سائنس آنے والے زمانے میں اس بات کی پیشین گوئی کرنے کے قابل ہو سکتی ہے کہ وقت سے پہلے لوگوں کو بتا سکے کہ زلزلہ آنے والا ہے ۔

ابھی تک سائنس نے اس انداز سے ستاروں کا مطالعہ نہیں شروع کیا ۔ابھی تک سائنس اس بات کو اہل نجوم کی گپ شپ سمجھتی ہے ۔اس کے خیال میں اِجرامِ فلکی کے محلِ وقوع کی وجہ سے زلزلوں کی شرح اور ٹیکٹونک پلیٹس کی حرکت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑسکتا ۔ابھی تک سائنس کا صرف یہی خیال ہے کہ ہمیں ایسی عمارتیں تعمیر کرنی چاہئیں جن کا بھونچال کچھ نہ بگاڑ سکیں ۔ہائے اقبال ساجد نے بھونچال پر کیا شعر کہا تھا

جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں

ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں

بے شک ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں بھونچال ہی بھونچال آتے رہتے ہیں ۔کبھی کوئی سیاسی بھونچال آجاتا ہے تو کبھی معاشی بھونچال اورکبھی دہشت گردی کے بھونچال پہاڑوں سے نکل پڑتے ہیں ۔بیدل حیدر ی یاد آ گئے

بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی

ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا

ہمیں سائنس سے کوئی علاقہ نہیں ۔ہم نےتو اس بات پر کبھی غور نہیں کیا کہ ساری دنیا کو وقت سے پہلے سیلابوں کی آمد کا پتہ چل جاتا ہے اوروہ جہاں تک ممکن ہوتا ہے لوگوں کی زندگیاں محفوظ بنالیتے ہیں ۔ سوائے ہمارے ۔گزشتہ سیلاب سے ایک مہینہ پہلے میں نے اپنے کالم میں بین الاقوامی ماہرین کی رپورٹ پیش کردی تھی کہ پاکستان میں انتہائی خوفناک سیلاب آنے والا ہے مگر کسی نے بھی توجہ نہیں دی تھی ۔

جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کےوقت اور تاریخ، مقام، اور شدت کی پیش گوئی ابھی تک ممکن نہیں ۔وہ چاند سے نکلنے والی شعاعوں کےزمین کی سطح اور سمندر کی لہروں پر اثرات سے آگے نہیں بڑھ رہے ۔سائنس دانوں نے اس سلسلے میں اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں ۔

دوہزار نو میں اٹلی میں ایک زلزلے میں جب تین لوگ ہلاک ہوئے تو انہوں نے اپنے چھ سائنس دانوں پر مقدمہ کردیا تھاکہ یہ وقت سے پہلے ہمیں زلزلے کے متعلق درست خبر کیوں نہیں دے سکے ۔ یہ مقدمہ سات سال تک چلتا رہا اور پھر انہیں بری کردیا گیامگر اس کے بعد سائنس دان زلزلوں کے متعلق پیشن گوئیاں کرنے میں بہت محتاط ہو گئے ۔ہمارے یہاں ہر سات آٹھ سال بعد ایک خوفناک سیلاب آجاتا ہے مگر ہم نےکبھی اپنی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی سےکچھ نہیں پوچھا ۔

پرانے زمانے میں جانوروں کے غیر معمولی رویے سے اندازہ لگایا جاتا تھا کہ زلزلہ آنے والا ہے۔ سائنس دانوں نے اس پر بہت کام کیا ہے کہ زلزلے سے کچھ دن پہلے جانور کیوں اس جگہ سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں جہاں زلزلہ آنا ہوتا ہے۔ مینڈک سب سے پہلے وہ جگہ چھوڑتے ہیں ۔انہیں اس بات کا کیسے علم ہوتا ہے کہ زلزلہ آنے والا ہے ۔ کہتے ہیں پاکستان سے ان دنوں جانور تو نہیں انسان ضرور بھاگ رہے ہیں ۔زلزلے سے پہلے جانوروں میں بے چینی اور غیر معمولی رویے کا مشاہدہ کرنے والوں کا خیال ہے کہ جانوروں کی زمین کے ساتھ کوئی جڑت ضرور ہے جس کا سائنس ابھی تک کھوج نہیں لگا سکی ۔

زلزلے سے پہلے تابکاری گیسز کے اخراج کے متعلق بھی رپورٹس موجود ہیں مگراس پر بھی خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔بڑے زلزلے سے پہلے اکثر معمولی جھٹکے بھی لگتے ہیں ۔مذہبی نقطہ نظر سے زلزلے وہاں آتے ہیں جہاں انصاف ختم ہوجائے ۔ایک روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی زلزلہ آیا، انھوں نے زمین پر ایڑی ماری اور فرمایا:اے زمین! تو کیوں ہلتی ہے، کیا عمر نے تیرے اوپر عدل قائم نہیں کیا؟ اور زلزلہ رک گیا۔ اطلاعات یہی ہیں کہ پاکستان میں بھی زلزلے کا خدشہ ہے کہ حکمراں عدل قائم نہیں کر پا رہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔