بلاگ
Time 22 فروری ، 2023

پختونخوا کو تباہ ہونے سے بچائیں

خیبر پختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ اعظم خان بڑے خاندان سے تعلق رکھنے والے سابق بیوروکریٹ ہیں۔ اچھی شہرت کے حامل ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ایک تو حد سے زیادہ شریف ہیں اور دوسرے اب بہت ضعیف ہیں۔ 2018کے الیکشن، جسے عمران خان کے سوا باقی سب سیاسی جماعتیں بالاجماع سلیکشن قرار دے رہی ہیں، کے لئے قائم نگران حکومت میں وہ وفاقی وزیر داخلہ تھے۔ 

ان کی اس شرافت سے تب سلیکٹرز نے بھی فائدہ اٹھایا ۔ وہ آرام سے ایک کونے میں بیٹھے رہے ۔ ادھر آرٹی ایس فیل کیا گیا، ادھر پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹ باہر نکلوائے جاتے رہے لیکن وہ کچھ کررہے تھے اور شاید نہ کچھ کرسکتے تھے۔ جب جے یو آئی نے پختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ کے لئے ان کا نام تجویز کیا تو میں اس نامزدگی پر حیران رہ گیا کیونکہ اصولی طور پر تو 2018 کی نگران حکومت کے ہر فرد کو اب کی بار نگران حکومت سے دور رکھنا چاہئے تھا۔

 ان کے 2018 کی سلیکشن میں اس حد سے زیادہ شریفانہ کردار کی وجہ سے ”کسی“ نے پرویز خٹک کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ اعظم خان کے معاملے پر محمود خان وغیرہ کو بھی راضی کرادیں اور انہوں نے یہ معجزہ کر دکھایا ۔پورے ملک میں واہ واہ ہونے لگی کہ پنجاب کے برعکس پختونخوا میں اتفاق رائے سے نگران وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوا لیکن اب پتہ چلا کہ مولانا صاحب نے کیا کھیل کھیلا ہے۔

 دراصل انہیں صوبے میں نگران وزیراعلیٰ کی صورت میں ایک عثمان بزدار چاہئے تھا کیونکہ بشریٰ بی بی اور فرح گوگی کی طرح صوبے کو اصل میں چلانے کے لئے انہوں نے پہلے سے اپنے سمدھی غلام علی کو گورنر بنا رکھا تھا۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ حد سے زیادہ شریف اعظم خان آرام سے بیٹھے رہیں گے اور حد سے زیادہ ہوشیار غلام علی صوبہ چلائیں گے۔ چنانچہ پہلی فرصت میں تو اعظم خان کو ایسے کابینہ دلوائی گئی جو پچاس فی صد جے یو آئی کے وابستگان یا اے ٹی ایمز پر مشتمل ہے ۔ 

کوٹے میں دو مسلم لیگ (ن) ، دو اے این پی (اے این پی کے دو میں سے بھی ایک عملاً غلام علی کے گروپ کے بندے ہیں) اور دو پیپلز پارٹی کے وزیر دیے گئے۔ایک ایسے صاحب بھی وزیر بنائے گئے جو سرکاری ملازم تھے اور اب انہیں فارغ کرنا پڑتا۔ بے شرمی کی انتہا دیکھ لیجئے کہ اب اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر بخاری کے بیٹے جرارحسین بخاری کو پختونخوا میں ایڈوائزر مقرر کیا گیا۔ ان سب تماشوں پر نگران وزیراعلیٰ یا تو خاموش تھے یا پھر انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ کابینہ کے پہلے اجلاس کی صدارت کے لئے گورنر جن کا انتظامی امور سے کوئی تعلق نہیں، آکر بیٹھ گئے۔ اپنے بیٹے جو پشاور کے مئیر ہیں کو بھی اس اجلاس میں بٹھایا تھا۔ ایک وزیر کی تقرری کے بارے میں جب وزیراعلیٰ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ 

دوسری طرف صوبے میں کرپشن کا بازار یکدم ایسا گرم ہوا ہےکہ لوگ پی ٹی آئی کے دور کو یاد کرنے لگے ۔ سیکرٹری سے لے کر چپراسی تک غلام علی اپنے بندے لگوانا چاہتے ہیں جب کہ دوسری طرف اتحادی جماعتیں اپنا حصہ مانگ رہی ہیں۔ وزیراعلیٰ حیران ہیں کہ کریں تو کیا کریں ؟ مولانا اور غلام علی چیف سیکرٹری اور آئی جی بھی اپنا لگوانا چاہتے تھے لیکن اس ایک کام میں وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے اختیارات استعمال کئے جس پر مولانا نالاں ہیں اور انہوں نے نون لیگ پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا ہے۔

 دوسری طرف غلام علی کے رویے سے تنگ آکر نگران وزیراعلیٰ حیران اور پریشان ہیں۔ گزشتہ روز ایک ٹوئٹ میں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان کی عزت بچانے کے لئے وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہوجائیں ۔ شام کو ایک دوست بیوروکریٹ کاظم نیاز کے بیٹے کی شادی میں شرکت کے لئے پشاور جانا ہوا۔ 

اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان، جو کاظم نیاز صاحب کے قریبی عزیز ہونے کے ناطے میزبان بھی تھے، نے شرارت کے لئے مجھے وزیراعلیٰ اور گورنر کی درمیان والی کرسی پر بٹھا دیا۔ سابق وزیراعلیٰ محمود خان بھی سامنے بیٹھے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ وزیراعلیٰ اور گورنر کی بات چیت بند ہے کیونکہ اس دو ڈھائی گھنٹے کی مجلس میں انہوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی ۔مجھ سے رہا نہ گیا اور ان سب کے سامنے وزیراعلیٰ اعظم خان سے کہا کہ سر! آپ مستعفی ہوکر اس گند سے نکل کیوں نہیں جاتے تو اس شریف آدمی نے کہا کہ سلیم! اس پرپھر کسی وقت بات کرلیں گے۔ 

یہاں پر موجود بیوروکریٹس سے پتہ چلا کہ غلام علی تمام ڈویژنز اور اضلاع میں اپنے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر لگوانا چاہتے تھے اور چیف سیکرٹری نے چوں کہ ان کی لسٹ کو من و عن قبول نہیں کیا اس لئے وہ ان سے ناراض ہیں ۔ اسی طرح وہ ہر ضلع میں اپنی مرضی کے ایس پیز لگوانا چاہتے تھے اور چونکہ آئی جی نے گورنر کی مرضی کے مطابق تقرریاں نہیں کیں، اس لئے غلام علی کو اب آئی جی بھی زہر لگنے لگے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ دہشت گردی کے فرنٹ لائن صوبے میں اگر صوبے کے بڑوں کے مابین تعلقات کار ایسے ہوں ، تو اس صوبے کا کیا بنے گا؟صوبے کو سب سے بڑا چیلنج طالبان کا درپیش ہے لیکن اس حوالے سے غلام علی اور جے یوآئی مکمل خاموش ہیں۔

 ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی نے علما کے نام جو سوالنامہ بھیجا،اس کے مخاطب بنیادی طور پر علما کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہیں لیکن آج تک انہوں نے اس موضوع پر لب کشائی کی ہے اور نہ غلام علی نے بلکہ اسلام آباد میں اس سلسلے میں علما کی جو میٹنگ بلائی گئی اس میں بھی وزیر مذہبی امور اور مولانا کے بیٹے اسد محمود نے بہانہ بنا کرشرکت نہیں کی اور مفتی تقی عثمانی صاحب کو آگے کیا۔

 نہ وہ کھل کر طالبان کا ساتھ دے رہے ہیں اور نہ کھل کر مخالفت کررہے ہیں بلکہ انہیں صرف اپنے بندوں کو اہم عہدوں پر تعینات کروانے اور اگلے انتخابات کے لئے انجینئرنگ کرنے میں دلچسپی ہے۔ دوسری طرف شہباز شریف کو صرف پنجاب اور زرداری کو صرف سندھ سے دلچسپی ہے۔ نہ جانے پختونخوا کے لوگوں سے کیا گناہ سرزد ہوا ہے کہ ان کے اوپر اس طرح کی حکومتوں کی صورت میں ایک کے اوپر دوسرا عذاب مسلط ہوتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔