پنجاب اور پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کا معاملہ، چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے لیا

جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے ازخودنوٹس کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا— فوٹو: فائل
جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے ازخودنوٹس کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا— فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کیلئے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر از خود نوٹس لے لیا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ کا حصہ ہونگے۔

عدالت عظمیٰ کیس کی سماعت کل 23 فروری دوپہر 2 بجے کرے گی۔

سپریم کورٹ نے از خود نوٹس میں تین سوالات اٹھائے ہیں، پہلا سوال اسمبلی تحیل ہونے پر الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ دوسرا سوال انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار کب اور کیسے استعمال کرنا ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی ذمہ داری کیا ہے؟ 

عدالت نے مزید کہا ہے کہ از خود نوٹس میں دیکھا جائے گا کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے؟ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہوئے ایک ماہ سے زائد وقت گزرنے کے باوجود تاحال انتخابات کی تاریخ نہیں دی گئی، الیکشن کمیشن بھی سکیورٹی سمیت فنڈز نہ ملنے کی شکایت کر چکا ہے، پنجاب اور کے پی اسمبلیاں 14 اور 17 جنوری کو تحلیل ہوئیں، آرٹیکل 224 دو کے تحت انتخابات اسمبلی کی تحلیل سے 90 روز میں ہونے ہوتے ہیں، آئین لازم قرار دیتا ہے کہ 90 دن میں انتخابات کرائے جائیں، انتخابات کی تاریخ کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ بار اور کے پی، پنجاب اسمبلی کے اسپیکرز کی درخواستیں بھی آئیں، ہائیکورٹ کے بینچ نے گورنرز سے مشاورت سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا حکم دیا۔ 

سپریم کورٹ کا مزید کہنا ہے کہ گورنر پنجاب اور الیکشن کمیشن نے ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کر دیں، گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل نہیں کی تھی، گورنر پنجاب کی ذمہ داری یا اختیار ہی نہیں کہ وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، موجودہ حالات میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کی طرف سے مسئلے پر غور اور حل ضروری ہے، آئین کی بیشتر شقوں اور الیکشن ایکٹ پر بھی غور ضروری ہے۔

عدالت نے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور عوام کے اپنے نمائندے منتخب کرنے کے حق سے متعلق آرٹیکل 17 غور طلب ہے، دو صوبوں میں انتخابات آئینی ذمہ داری اور ضرورت ہے، انتخابات آئینی ذمہ داری سے جڑے ہیں اور اس سے بنیادی حقوق براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی نے ازخودنوٹس کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا۔ سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگر کیس میں 16فروری کو ازخودنوٹس کیلئے معاملہ چیف جسٹس کوبھیجا تھا۔

خیال رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد نگران سیٹ اپ کام کر رہا ہے اور صوبائی گورنرز کی جانب سے انتخابات کی تاریخ نہیں دی گئی۔

اس معاملے پر دو بار صدر نے مشاورت کیلئے الیکشن کمیشن کو خط لکھا لیکن الیکشن کمیشن نے مشاورت سے انکار کیا جس کے بعد صدر مملکت نے ازخود دونوں اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے 9 اپریل کی تاریخ کا اعلان کردیا۔