بلاگ
Time 23 فروری ، 2023

عارف علوی کا ایسٹر سنڈے الیکشن اور اقلیتیں

الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے سے پہلے صدر پاکستان نے ملکی آئین دیکھا تھا یا نہیں، یہ تو عدالت طے کرلے گی مگر اتنے اہم اقدام سے پہلے کم سے کم کیلینڈر تو دیکھ لیتے۔

یہ سمجھ سے بالاتر ہےکہ صدر کے دماغ پر الیکشن کرانے کی ایسی کیا چڑھی تھی کہ انہوں نے ووٹنگ کیلئے ایسٹر سنڈے کی تاریخ دے ڈالی۔

عارف علوی ڈاکٹربھی ہیں، وہ یقیناً کیلینڈر دیکھ کر ہی مریضوں کے دانت لگاتے اور نکالتے ہوں گے مگر آنکھیں بند کر کے جس طرح انہوں نے الیکشن کی تاریخ دی ہے، آج ان کی عقل پر پوری مسیحی برادری دانت نکالے ہنس رہی ہے اور اپنی قسمت پر رو رہی ہے۔

صدر علوی نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے الیکشن 9 اپریل کو کرانے کا اعلان کیا ہے، یہ اتوار کا دن ہوگا یعنی ایسٹر سنڈے۔ مسیحیوں کے نزدیک ایسٹرسنڈے وہ دن تھا جب مصلوب کیے جانے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام پھر سے جی اُٹھے تھے۔ یہ خوشی کا ایسا تہوار ہے جس پر دنیا بھر میں مسیحی کمیونٹی جشن مناتی ہے۔

قارئین بخوبی واقف ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم ولادت تو مسیحی برادری شمسی کیلینڈر کے لحاظ سے 25 دسمبر کو مناتی ہے مگر ایسٹر سنڈے یہودیوں کے قمری کیلینڈر کے لحاظ ہی سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تاریخ بدلتی رہتی ہے ۔ پچھلے پانچ سو برسوں میں یہ تہوار 31 مارچ یا 16 اپریل کو منایا جاتا رہا ہے تاہم اس بار یہ 9 اپریل کو ہو گا۔

ملک کا صدر اس بنیادی بات سے واقف نہیں یہ حیران کن ہے کیونکہ صدر کو پارٹی وابستگی سے کہیں بالا ہوکر ریاست کا سربراہ اور ملک کے اتحاد کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عارف علوی عہدہ سنبھالنے کے وقت سے ہی متنازعہ رہے ہیں۔تاہم اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ انتخابات کی متنازعہ تاریخ ،انہوں نے جگ ہنسائی کا سبب بنا دی ہے۔

ملک کی مسیحی کمیونٹی یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ آیا علوی صاحب عیدالفطر یا عیدالاضحیٰ کے روز انتخابات رکھ سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو مسیحیوں کے تہوار کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟ کیا مسیحی برابر کے شہری صرف الفاظ کی حد تک ہیں؟ کیا ملک کے صدر نے انہیں یہ پیغام دیا ہے کہ تمہارے ووٹوں کی ضرورت نہیں، تمہاری کوئی حیثیت نہیں؟

مسیحیوں کا دل دُکھانے سے پہلے کم سے کم ایک بار سوچ ہی لیا ہوتا کہ قیام پاکستان میں اس کمیونٹی کا کتنا کلیدی کردار رہا ہے۔عارف علوی کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ انہوں نے یہ اُسی پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دی ہے جو مسیحیوں کی بدولت پاکستان کا حصہ بنا تھا۔

عارف علوی اپنے ماضی کو کھنگالیں تو انہیں یاد آجائے گا کہ کون سی جماعت تھی جس نے پاکستان کے قیام اور قائداعظم کی مخالفت کی تھی اور وہ کون قابل قدر شخصیات تھیں جو غیرمسلم ہوتے ہوئے، برطانوی حکمرانوں کی ہم مذہب ہوتے ہوئے بھی مسلم اکثریتی پاکستان بنانے کے لیے خم ٹھونک کر کھڑی ہوگئی تھیں۔

شاید عارف علوی بھول گئے کہ قیام پاکستان سے پہلے پنجاب میں چاروں اقلیتی اراکین اسمبلی کا تعلق مسیحی کمیونٹی سے تھا۔ ایس پی سنگھا ان میں سے ایک تھے۔ سنگھا نے پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر ننگی کرپان تھامے پاکستان مخالف سکھ اکالی دل پارٹی کے لیڈر ماسٹر تاراسنگھ کو للکارا تھا کہ 'سینے پہ گولی کھائیں گے، پاکستان بنائیں گے۔'

علوی صاحب کو یاد ہوکہ نہ یاد ہو، انجمن حمایت اسلام کے صدر امیرالدین نے جب 1946 میں لاہور کے میئر کا الیکشن لڑا تھا تو انہیں ہم مذہب مسلم لیگیوں نے دغا دی تھی ۔وہ بھی مسیحی کمیونٹی کی مدد سے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

ذہن پر زوردیں تو شاید عارف علوی کو یاد آئے کہ جون 1947 میں ہوئے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں بھارت کے ساتھ رہنے کے حق میں 88 جبکہ پاکستان کے ساتھ جڑنے کے حق میں 91 ووٹ ڈالے گئے تھے۔ پاکستان کے حق میں اضافی تینوں ووٹ مسیحی سیاستدانوں دیوان بہادر سنگھا، سیسل گببن اور فضل الٰہی کے تھے۔یعنی انہی تینوں مسیحیوں کی وجہ سے پنجاب کو پاکستان کا حصہ بنایا گیا تھا۔

یہ الگ بات ہے کہ ملک کو رفتہ رفتہ مذہبی انتہاپسندی کی بھینٹ چڑھا کر مسیحیوں سمیت اقلیتوں پر زمین تنگ کی جاتی رہی اور آج یہ نوبت ہےکہ صدر نے ایسٹر سنڈے پر الیکشن رکھ دیے تو کسی حلقے سے آواز بھی نہ آئی، نہ کسی سیاسی جماعت نے معاملہ اٹھایا۔

عارف علوی کیلئے یہ بھی عرض ہے کہ جو ہم آج فخریہ کہتے ہیں کہ 'جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں' یہ لاہور بھی پاکستان کا حصہ بننا بڑی حد تک گببن ہی کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ یہ گببن ہی تھے جنہوں نے ہندوستان کی تمام مسیحی کمیونٹی کو پاکستان آکر آباد ہونے کا مشورہ دیا تھا۔شاید یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے وقت پنجاب میں مسیحیوں کی جو آبادی تقریباً 5 لاکھ 16 ہزار تھی وہ 1961 میں بڑھ کر 7 لاکھ 33 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔

اب یہ وقت آیا ہے کہ سن 2017 میں کی گئی چھٹی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں مسیحیوں کی تعداد مجموعی آبادی کا محض ایک اعشاریہ دوسات فیصد ہے۔ جن کی اکثریت یعنی ایک اعشاریہ آٹھ آٹھ فیصد آبادی پنجاب ہی میں رہتی ہے۔ اُسی لاہور اور اس کے مضافات میں جس کے پنجاب میں شامل ہونے کا مقدمہ کبھی گببن نے لڑا تھا۔

آج اسی پنجاب میں مسیحیوں کی آبادیوں پر حملے بھی کیے جاتے ہیں، گرجاگھروں کو آگ لگائی جاتی ہے۔ایسے میں وہ تھائی لینڈ، سری لنکا، ملائیشیا، انڈونیشیا سمیت جہاں بن پاتا ہے، منتقل ہو رہے ہیں۔ جو صاحب حیثیت ہیں، وہ امریکا، برطانیہ، یورپ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی راہ لے رہے ہیں۔

عارف علوی کو کیا کیا بات یاد دلائیں، حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی اس ملک میں مذہبی انتہاپسندی بڑھائی جا رہی ہے۔ یہ الگ بات کہ عموماً جنرل ضیا کو برا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکال لی جاتی ہے۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ جو کام آج صدر عارف علوی نے کیا، اس میں ان کے کئی پیشرو بہت سی حدیں پار کر چکے۔ جانے کس کی قبر کھودنی ہے کہ ہم خود کو گڑھے میں گرانے سے بھی باز نہیں آ رہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔