ریاست بمقابلہ ریاست

کیا ریاستی آئینی ادارے ایک دوسرے کے مدِ مقابل سینہ تانے کھڑے ہیں؟انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کو، آنے والے دن دل دہلا دینے کو ۔تاریخ انسانی قوموں کے بناؤ اور بگاڑ ، ریاستوں کے عروج و زوال کے رہنما اُصول متعین، کتاب الحکمت میں مبادیات طے ہیں ۔

قوموں پر جب تباہی تن جائے تو گہری کھائی کی طرف دیوانہ وار لپکتے ہیں ، یہی کچھ وطنی کہانی ہے۔ پارلیمان ، سپریم کورٹ ، الیکشن کمیشن ، اور نیب چار آئینی ادارے کہنے کو آزاد ہیں۔ پارلیمان (مقننہ) سب کی ماں ،جنم ضرور دیا ، سپریم کورٹ سختی سے حاوی ہے ۔ویسے تو مقننہ ’’غریب کی جورو،آئینی اداروں اور طاقتوروں کی بھابھی بن چکی ہے‘‘۔ سپریم کورٹ کے اوپر بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سب پر بھاری ہے ۔ 70 سال سے مملکت کے سیاہ و سفید کے مالک بن چکے ہیں ۔

 محمد علی بوگرہ سے عمران خان تک سب کو وزرائے اعظم کی مسند پر بٹھانے اور ہٹانے میں موثر،ایک تجربہ بھی ناکام نہیں رہا۔70 سال پہلے سے ایک ہی ہلے میں پارلیمان اور سپریم کورٹ کو ترنوالہ بناڈالا ۔ تب سے دونوں ادارے بغل بچہ، جنرل باجوہ نے اس سہولت کا بے رحمانہ استعمال کیا ۔ مجال کہ کبھی پارلیمان ، عدالتیں، کوئی ادارہ، کوئی محکمہ اشارے کے بغیر حرکات و سکنات کی جرأت کرے۔

عمران خان کو شاباش کہ سب اداروں میں تعیناتیوں سے لے کر ترکیب استعمال میں اسٹیبلشمنٹ کا کچا چھٹا ڈنکے کی چوٹ پر کھول کے رکھ دیا ۔ عمران خان کے اِس مطالبہ پر کہ جنرل باجوہ کیخلاف انکوائری اور اُنکی گوشمالی ضروری ، دل باغ باغ ہو اُٹھا ہے۔ جنرل باجوہ صاحب کی جامع انکوائری انتہائی ضروری ہے ۔ آج میں اللہ تعالیٰ اور قارئین جنگ کو گواہ بنا کرقسم کھاتا ہوں، اس معاملے میں عمران خان کیساتھ بنفس نفیس بغیر کسی منفعت کے ہر قِسم کی حمایت کروں گا۔

 ہر انتہا پر جانے کے لئے تیار ہوں۔بقایا عمر شانہ بشانہ، تن اور من کیساتھ اس عظیم مقصد کے لئے وقف کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ میری شرط ایک ہی، جنرل باجوہ صاحب پر انکوائری اُن کے آخری سال تک محدود نہیں رہنی۔ 29 نومبر 2016 سے 29 نومبر 2022 تک کا احاطہ کئے بغیر اُن کے مبینہ جرائم کا تعین نہ کرنا، خود غرضی اور دوغلاپن اور سعی لاحاصل ہے۔ اِس کے ساتھ ہی جنرل باجوہ کی ادارے کے اندر تجاوزات اور ڈسپلن کی بے توقیری کی انکوائری بھی لازمی کرنی ہوگی۔ مزید براں آئین و قانون کی بے حُرمتی اور ادارے سے کِھلواڑ میں ملوث جنرل باجوہ کے شراکت داروں کا تعین بھی اَزحد ضروری ہے۔ شرطیہ کہتا ہوں اگر جنرل باجوہ کو عمران خان جیسا مہرہ اور سپریم کورٹ جیسا گھوڑا دستیاب نہ ہوتا تو اس بہیمانہ طریقہ سے آئین اور قانون پاش پاش نہ ہو پاتے۔ 

2014 سے آئین اور قانون کو جوتے کی نوک پررکھا گیا۔ میڈیا کو چاروں شانے چِت کرکے سینے پُھلائے گئے۔ 2014 سے عمران خان 8 سال قدم بہ قدم شریک جُرم، لُوٹا مال غنیمت سمیٹنے والا اکلوتا تھا۔ عمران خان کا 5 برسوں سے چشم پوشی رکھنا اور آخری سال کے مبینہ جُرائم پر انکوائری کے لئے تڑپ ،محض منافقت اور دوغلاپن ہوگا۔ 5 سالہ جرائم کے نتیجے میں، پونے چار سال طاقت، مال و دولت دونوں ہاتھ سے سمیٹ کر عمران خان اپنا استحقاق حقِ دعوہ ختم کر چکے ہیں۔آپ اگر صدق دِل سے انکوائری چاہتے ہیں تو پہلے سچ بھی اُگلنا ہو گا۔

عمران خان کی گواہی اہم کہ ذات مبارکہ شریک جُرم بھی اور عینی شاہد بھی ہے۔ عمران خان کو وعدہ معاف گواہ کی سہولت بھی میسر رہے گی۔ سپریم کورٹ میں رضاکارانہ 8 سال جوڑ توڑ پر بیان درج کرؤائیں تو تاریخ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ کاش سچ بول دیں تو نہ صرف مقبولیت کو چار چاند، سفر آخرت کا بہترین زادِراہ رہنا ہے۔

کل شہباز شریف کی پریس کا نفرنس اور ’’جیل بھرو تحریک‘‘ پر عمران خان کا خطاب، جھوٹ کا پلندہ تھا۔شہبازشریف کے سکہ بند الزامات کے جوابات موجود نہیں تھے۔ جواب میں معاشی اشاریوں سے لےکر بیانیے تک کے جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ سوشل میڈیا ہی تو آپ کے ماضی کے بیانات اُجاگر کر کے منہ چڑھاتا رہے گاکہ ماضی مزاحیہ پروگرام ہی تو ہے۔ جناب کے ماضی میں دیے گئے متضاد بیانات آج چار سو پھیلے ہیں ۔پرویزالٰہی کل تک سب سے بڑا ڈاکو، آج تحریک انصاف کی مسند صدارت پر بیٹھا ہے۔

 میری ایماء پر جاوید ہاشمی کے لئے یہ پوزیشن وجود میں آئی تھی۔تب سے خالی ہے۔ بالآخرآج پرویز الٰہی کے حصے میں آئی۔کیا حسین مطابقت ہے، کہاں گنگو پرویز صاحب اور کہاں راجہ جاوید ہاشمی، آفرین ! جیل بھرو تحریک 25 مئی ،26 نومبر کے لانگ مارچ ، KP اور پنجاب اسمبلیوں کی تحلیل کی بھرپور ناکامی کے بعد ایک مدافعانہ عمل ہی، مایوس سیاست کا آئینہ دار ہے۔

یقین دلاتا ہوں اگر جھوٹ چھوڑ دیں تو نہ صِرف توبہ النصوح نے آپ کی مقبولیت کو مزید چار چاند لگانے ہیں۔سچ بول کر بھی عزت اور مقبولیت دونوں واگزار ہو سکتے ہیں ۔عمران خان جھوٹ بولنا چھوڑ دے تو اُن کی سیاسی موت آ جائے۔سیاسی ، سماجی ، معاشرتی ، نجی زندگی کا انحصار مکمل جھوٹ پر ہے ۔ حیف ! مقبولیت کی وجہ جھوٹ کی مرہون منت ہے۔

ایک اور اہم خبر، سپریم کورٹ کا 9 رُکنی بینچ KP اور پنجاب میں الیکشن پر سماعت کرے گا ۔ حیرت دو انتہائی سینئر ججز غیر موجود ہیں۔ احتیاط سے بینچ میں چند ایسے جج شامل جن پر قسمت کی دیوی عرصہ سے مہربان ہے ۔جب سے مخصوص ججوں نے سپریم کورٹ میں قدم رَنجا فرمایا تب سے اپنے SENIOR کی موجودگی میں ہمیشہ ترجیحی بنیاد پر ہر سیاسی ، آئینی کیس میں فوقیت رہی۔ ایسے ججوں کی خدمات پر اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد زندہ مورخ بہت کچھ لکھنے کو تڑپ رہے ہیں۔

 دو جج تو حال ہی میں خبروں کی زینت بنے، بڑا نام کماچکے ہیں ۔ 9 رُکنی بینچ کی تجویز انہی دو ججز کی آئین کو مزید عزت دینے کی انتھک کوشش ہے۔ حکومتی سیاستدان برملا اُن کے بارے میں تحفظات ظاہر کرچکے ہیں ۔ ان دو ججز سے نبٹنے کے لئے کل ہی پاکستان بار کونسل خم ٹھونک کر سامنے آ گئی ہے، اُن کے خلاف SJC میں جانے کا عندیہ دیا ہے ۔اس وقت ہر ادارہ اور فرد اپنے اپنے مفادات اور خواہشات میں اندھا ہو چکا ہے۔ میرا لمحہ فکر یہ اونٹ کی کمر پر وہ آخری تنکا جو اونٹ کی کمر توڑنے کو ہے۔قطع نظر کون سا ادارہ کون سے ادارے کی پہلے حکم عدولی کرتا ہے ،ریاست بمقابلہ ریاست ، اس قسم کا ٹکراؤپہلا وطنی تجربہ ہی ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔