بلاگ
Time 26 فروری ، 2023

نواز، زرداری یا عمران میں بہتر مسافر کون؟

کچھ ہیں جنہیں منزل کی نسبت سفر میں زیادہ دلکشی نظر آتی ہے، رختِ سفر باندھے ہوئے نشیب و فراز کا سامنا تو فطری ہے لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ منزل کے بعد سفر نہیں ہوگا ؟ سفر اور وقت نہیں رُکتے، دل میں نہ زمین پر !

وقت واقعی چل اور بدل رہا ہے، وہ بھی تیزی سے، تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ بہتری کی جانب رواں ہے یا تنزلی کی طرف۔ سب باتیں اپنی جگہ لیکن کوئی ہے جو انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کو بتائے کہ آپ سب کے اپنے اپنے سلیبس ، اپنے اپنے امتحانات اور اپنی اپنی حدود ہیں سو ’’حدود آرڈیننس‘‘ کا خیال پہلا قرینہ ہے کرسی سے محبت کے قرینوں میں۔

 فصاحت و بلاغت کے جن ٹھیکیداروں اور کَلاکاروں نے اپنی ہنرمندی سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا تھا وہ خواص کی سعادت مندی پر چل نکلے اور چوتھے ستون کی منزل تراش لی، اور آج مؤذن ریاست کا چوتھا ستون کہلانے کا متلاشی ہے بلکہ اس اعزاز کی منزل پا کر اسے ہضم کرنے کے درپے ہے۔ اسی لئے تو فقیر کہتا ہے سفر کی راحت اور چاہت سے لطف اندوز ہو جائیے منزلیں قدم چومتی رہیں گی۔ ایک منزل کو من پسند کر لیا تو نشے کی لَت لگ جائے گی، نشہ رکاوٹ ہے اور سفر رکاوٹوں کو ہٹانے کا منفرد فن!

کسی نے فقیر سے پوچھا، تمہیں بیوروکریٹ، ٹیکنوکریٹ ، جرنیل اور ججز سے سیاست دان کیوں زیادہ پسند ہیں؟ کہا کہ سیاست دان کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ کوئی ’’(ر)‘‘ اس کے عہدے کا لاحقہ بن کر کسی ’’گرہن‘‘کا سبب نہیں بنتی۔ پھر سیاستدان ہی توہےجومملکت خداد میں روز احتساب کی کسوٹی پر سفر کرتاہے۔ہر قسم کااحتساب سیاست دان کو ٹھوک بجا کر چیک کرتا ہے کہ کہیں ریٹائرڈ تو نہیں ہوگیا۔ لوگ تو ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹارٹڈ بھی ہو جاتے ہیں، یعنی جمود کا شکار، لیکن سیاستدان جیتے یا ہارے کبھی ریٹارٹڈ نہیں ہوتا ، جمود کا شکارنہیں ہوتا ، کہ جمود تو موت ہے۔ وہ سیاستدان ہی کیا جس کا قدم رُک گیا ایسے جیسے وہ دانشور ہی کیا جس کا دماغ رُک جائے!

وہ سیاستدان جو یہ سمجھتے ہیں کہ، کوئی عدالت یا اسٹیبلشمنٹ انہیں طشتری میں رکھ کر حکومت دے گی، وہ کسی حد تک سیاست دان تو ہوسکتے ہیں، قیادت نہیں۔ قیادت عذابوں، خوابوں اور خرابوں میں سے حقیقت اور انسان دوستی کا راستہ نکالتی ہے، اور ایک لمحہ بھی اسٹیٹس مین کی روایت سے روگردانی نہیں کرتی۔نظریۂ ضرورت والوں سے نظریاتی تعبیر مانگنا آپ کو منگتا تو بنا سکتی ہے فقیر نہیں۔ مصالحت پسندی آصف علی زرداری والی، تعمیر سازی میاں نواز شریف والی، زیرک حکمرانی اور معاملہ فہم خارجہ پالیسی ذوالفقار علی بھٹو اور کمٹمنٹ قائدِ اعظم محمد علی جناح والی کو سنگ سنگ لے کر چلنا ہی آج کی قیادت کا زیور اور پوشاک ہو سکتے ہیں۔ ہاں اسمارٹنس عمران خان والی اہم ہے۔ 

کب تک ججوں اور جرنیلوں پر یقین رکھو گے، اپنی محنت اور فراست کے علاوہ عِجز ضروری ہے۔ جہاں تک معیشت کی بات ہے، اگر لوگ ’’مقبول‘‘ فیصلوں سے نکل کردیانتداری کو مطلوب راہ پر دیکھیں تو آصف علی زرداری کی دریافت حفیظ شیخ میں بہت دم تھا، زرداری صاحب نے استفادہ کیا تو 2008 تا 2013 کے دور میں لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی، مہنگا پٹرول اور اونچا ڈالر بھی پاکستان کی اس ایکسپورٹ میں رکاوٹ نہ بنا جس میں امپورٹ کم کرنا پڑی، اہل علم کو یاد ہوگا زرداری حکومت کچھ محکمے منافع میں بھی چھوڑ کر گئی تھی۔ لیکن اس کے بعد سے تاحال ہم نے گروتھ ریٹ دکھانے کے چکر میں وہ گروتھ دکھائی جو پائیدار اور مستقل ہونے کے بجائے ناپائیدار اور غیر مستقل تھی مگر ’’پاپولر‘‘ تھی۔ 

پھر ایکسپورٹ وہ دکھائی جو اپنے حجم سے کہیں زیادہ امپورٹ پر منحصر تھی۔ سطحی اقتصاد فہم بےشک غور کرلیں اگر اس فارمولے کو دوام بخشا جاتا تو 2013کے بعد بھی بیس سال ایکسپورٹ انجوائے کی جاسکتی تھی لیکن ہم معیشت میں بھی ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے اور کا راستہ نہیں چھوڑتے۔ آج جو ہم الیکشن ، جمہوریت اور پارلیمانی استحکام فاضل ججوں سے مانگ رہے ہیں، اگر پانامہ کیس میں بھی حل زرداری صاحب کے مشورے پر چلتے ہوئے پارلیمان سے مانگ لیتے تو پارلیمنٹیرینز کو یہاں تک خوار نہ ہونا پڑتا۔جمہوریت کی منزل کیلئے مسافت شاید معیشت کی منزل سے بھی مشکل ہے، اور یہ بھی غلط نہیں کہ دونوں منزلیں پانا ہی ممکن نہیں۔ 

وجہ یہ کہ معیشت یا جمہوریت کی منزلوں کے نیچے ارتقا کے پہیے ہوتے ہیں، آپ جونہی منزل پر قدم جماتے ہیں وہ پہیے حرکت میں آجاتے ہیں۔ یہاں پھر ایک نئے سفر کیلئے کمر بستہ ہونا لازم ہو جاتا ہے’’در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا ... جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا‘‘ پس سیاستدان یا قیادت اپنی منزل کو ارتقا والی حرکت ہی میں تلاش کرے نہ کہ اسٹیبلشمنٹ کی ’’برکت‘‘ میں!

گر تمام مقامات اور روایات میں پیٹی بند بھائی چارے کا رواج ہے، جو ایک دوسرے کو جائز و ناجائز سپورٹ کرتے ہیں تو ایسی سیاست اور ریاضت کے مسافر انسانی حقوق کی ترجمان جمہوریت کیلئے پیٹی بند کیوں نہیں بن جاتے؟ اگر سیاستدان آج اپنے آپ کو آئین کی ڈوری میں پرو لیں تو کبھی اس شرک کو بروئے کار نہ لانا پڑے جو غیر کے در پر ماتھا ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے! نرگسیت یا مخالفت یا بےجا دشنام طرازی سے ہٹ کر عمران خان جمہوریت کے اس سفر میں نواز و زرداری کا ہم سفر ہو کر دیکھیں تو عین ممکن ہے سب سے زیادہ فائدہ سمیٹ لیں، جمہوریت ازخود ایک کرشمہ ہے جو انسانی حقوق کی نگہبانی کرتا ہے! پس سیاستدان خود پاسبان اور نگہبان بنیں ورنہ نظریہ ضرورت والوں کی ضرورتیں غالب ہی رہیں گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔