فیکٹ چیک : حکومت نے میڈیکل گریجویٹس کیلئے نیشنل لائسنسنگ امتحان ختم کر دیا ہے

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ میڈیکل گریجویٹس کو اب نیشنل لائسنسنگ امتحان دینےکی ضرورت نہیں ہے

مختلف سوشل میڈیا صارفین اور میڈیا رپورٹس نےیہ دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی حکومت نے پاکستان میں پریکٹس کرنے والے میڈیکل گریجویٹس کے لئےنیشنل لائسنسنگ ٹیسٹ معطل کر دیا ہے۔

یہ دعویٰ بالکل درست ہے۔

دعویٰ

12 فروری کو ایک ٹوئٹر صارف نے اپنی ٹوئٹ میں لکھاکہ ”وفاقی حکومت نے میڈیکل گریجویٹس کے لیے لازمی لائسنسنگ امتحان کو ختم کر دیا ہے، اب ہر طالب علم کو گریجویشن کے بعد خود بخود لائسنس مل جائے گا۔“

اس نیوز آرٹیکل کے شائع ہونے تک اس ٹوئٹ کو 17 ہزار سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔

حقیقت

10 فروری کو حکومت کے زیر انتظام پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PM&DC) کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز نے اس بات کی تصدیق کی کہ میڈیکل گریجویٹس کو اب نیشنل لائسنسنگ امتحان (NLE) دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ”وفاقی وزیر صحت عبدالقادر  پٹیل کے وعدے کے مطابق پی ایم اینڈ ڈی سی نے 8 فروری سے پاکستان کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں سے گریجویشن کرنے والے ڈاکٹروں کو نیشنل لائسنسنگ امتحان کے بغیر مستقل رجسٹریشن سرٹیفکیٹس جاری کرنا شروع کر دیےہیں۔“

پی ایم اینڈ ڈی سی کا مزید کہنا تھا کہ یہ میڈیکل کمیونٹی کا دیرینہ مطالبہ تھا۔

تاہم پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غیر ملکی یونیورسٹیوں سے انڈرگریجویٹ ڈگری مکمل کرنے والے طلبہ کو اب بھی نیشنل رجسٹریشن کا امتحان لازمی دینا ہوگا۔ پی ایم اینڈ ڈی سی کی چیف پبلک ریلیشنز  آفیسر حنا شوکت نے جیو فیکٹ چیک کو ٹیلی فون پر بتایا کہ نیشنل رجسٹریشن کا امتحان2020ء سے قبل بھی موجود تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ”یہ بچے ان کالجز میں جاتے ہیں جو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے تصدیق شدہ ہوتے ہیں جو اس پر چیک ایند بیلنس رکھتے ہیں، مانیٹر کرتے ہیں اور ریگولیٹ کرتے ہیں۔ پی ایم ڈی سی کبھی بھی یہ ایگزیم نہیں لیتا تھا کیونکہ وہ MDCAT دے کر  پانچ سال ایگزیم  دے کر آتے۔ “

پھر ستمبر 2020 ءمیں اس وقت کی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے ذریعے PM&DC کو پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC) سے تبدیل کر دیا تھا۔ اس نئے قانون کے تحت پاکستانی میڈیکل کے طالب علموں کے لیے لائسنس کے حصول کے لیے امتحان کو لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔

حنا شوکت نے بتایا کہ” جب PMC آیا تو انہوں نے کہا کہ اب پاکستانی بچے بھی یہ ایگزام دینگے جبکہ آلریڈی 80 سے 90 فیصد لینے والے بچوں نے اس کے خلاف پروٹیسٹس بھی کیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہر کرائیٹیریا پر پورا اتر کر کالجوں میں جاتے ہیں تو ہم ایک اور ایگزام کیوں دیں؟“

این ایل ای کیوں متعارف کرایا گیا؟

ڈاکٹر فیصل سلطان نے این ایل ای کو شروع کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا، وہ 2020 ءمیں سابق وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت تھے۔

انہوں نے جیو فیکٹ چیک کو واٹس ایپ میسجز میں بتایا کہ ” نصف درجن صوبوں/علاقوں میں 100 سے زائد میڈیکل کالجز  والے ملک[پاکستان] میں یہ چیز بہت اہم ہے کہ نئے میڈیکل گریجویٹس قابلیت اور مہارت کی یکساں سطح کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہوں۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ”یہ ایک یکساں نیشنل لائسنسنگ امتحان کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہےجو کہ ایک قابل اعتماد اور نتیجہ خیز طریقہ ہے، اس سے نہ صرف اس فرد میں اعتماد پیدا ہوتا ہے جسے لائسنس دیا جاتاہے کہ وہ ایک قابل ڈاکٹر ہے بلکہ یہ کالجز کے تعلیمی معیارات کو جانچنے کا بھی ایک انتہائی حساس طریقہ بھی ہے۔“

ڈاکٹر فیصل سلطان نے مزید بتایا کہ یہ امتحان ایک طرح سے میڈیکل کالجز کے تعلیمی معیار کو جانچنے کیلئے  پانچ سال کے اختتام پر لیا جاتا تھا۔

ڈاکٹر فیصل سلطان نے مزید کہا کہ”اکثر ایسے کالج ہوتے ہیں جوایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اوران کے درمیان معیار کا بھی بہت فرق ہوتا ہے، صارف[مریض] کم سے کم سطح کی اہلیت کی یقین دہانی کرنے کا مستحق ہے۔“

ڈاکٹر فیصل سلطان نے یہ بھی کہا کہ یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک جیسا کہ برطانیہ یا امریکا میں اچھی یونیورسٹیوں کو  اکثر لائسنس کیلئے قومی یا پھر  ایک الگ امتحان کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔