Time 04 مارچ ، 2023
بلاگ

کیا یہ ملک اس لئے بنایا گیا تھا؟

کہا جاتا ہے کہ کبھی کوئی مصیبت تنہا نہیں آتی وہ دیگر کئی چھوٹی بڑی ابتلاؤں کو اپنے ساتھ لاتی ہے۔ آج پاکستانی معیشت اگر ڈوبی ہوئی ہے تو دیگر شعبہ جات و معاملات کون سے ہواؤں میں اڑ رہے ہیں ،یہاں مالی کرپشن پر ٹسوے بہائے جاتے ہیں جب کہ اخلاقی بربادی اس سے بھی بدتر ہے۔ 

تحمل، رواداری و برداشت نام کی کوئی چیز کہیں نظر آتی ہے؟ دہائیوں سے یہاں جاری عسکریت پسندی کا رونا رویا جا رہا ہے، سیاست دانوں کی نااہلی کا راگ الاپا جا رہا ہے آج اپنی سپریم جوڈیشری کے متعلق کیا کہیں؟ چھوٹے میاں چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ! صدر سمیت جو غیر سیاسی اور خالصتاً آئینی ذمہ داریاں ہیں آخر ان کے پیٹوں میں سیاسی مروڑ کیوں اٹھ رہے ہیں؟

کہا جاتا ہے کہ انصاف ہونا ہی نہیں چاہئے ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے ،یہاں انصاف نامی کسی فاختہ کی جگہ اس کا خون ہوتا ہر ڈوبتے دن کے ساتھ نظر آتا ہے گویا ہمارے منصفی کے ایوانوں میں انصاف کی تحریک بر اجمان ہے ججز کی آنکھوں کےسامنے عدالتی ایوانوں میں انصافی بلوے ہوتے ہیں گیٹ پھلانگے ہی نہیں توڑے جاتے ہیں مگر بسم اللہ ہمارا شہزادہ آیا ہے ماں صدقے، کہیں کوئی خراش تو نہیں آئی حال پوچھا جاتا ہے کہ جب انٹرا کورٹ چل رہی تھی تو پھر سوموٹو کی کیا مجبوری تھی؟

کیا صوبائی اسمبلیوں کا صوبائی معاملہ ہائی کورٹس سے متعلقہ نہیں ہوتا؟ اوپر تو کوئی اپیل کی صورت میں ہی جاتا ہے مگر کیا کہیں قومی درد ہی بہت زیادہ ہے ملک بھر کی وکلا برادری کے نمائندہ اداروں کی طرف سے استفسار کیا جاتا ہے کہ کیا سینئر موسٹ کا بھی کوئی میرٹ ہوتا ہے یا آئندہ سے آؤٹ آف ٹرن بٹھائے جانے والے جونیئرز سب کچھ بلڈوز کر سکیں گے؟

کیا اس وقت اس ملک کا فوری مسئلہ انتخابی دنگل بپا کرنا ہے ؟ ایسا اگر ہے تو پھرسیٹی بجائیے اور معرکہ برپا کر دیجئے۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ انتخاب آئینی تقاضا ہے جس پر عملدرآمد ہونا چاہئے مگر یہ یاد رہے کہ آئینی تقاضے اور بھی ہیں ۔انتخابات سے پہلے نئی مردم شماری کروانا اور ان کی مطابقت میں نئی حلقہ بندیاں کرنا بھی آئینی تقاضا ہے۔ 

صادق و امین کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والوں کے سامنے یہ بھی آئینی تقاضا ہے کہ اپنے ایسے تمام تر جعلی سرٹیفکیٹ منسوخ کریں اگر آئین و قانون کی عملداری ہونی ہےتو لاڈلے اور سوتیلے کا فرق مٹانا ہو گا۔ جناح ثالث کو بھی یہ سوچنا ہو گا کہ وہ کوئی مہاتما نہیں ہے جنتا جس کے اشاروں پر اٹھے اور بیٹھے، اگر کوئی غلط فہمی تھی تو وہ جیل بھرو تحریک کی شرمناک ناکامی سے واضح ہو جانی چاہئے اب تو محترمہ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال صاحبہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ میں نے اپنے بیٹے کو گرفتاری دینے سے منع کیا تھا کہ یہ کیسا لیڈر ہے جو خود تو گرفتاری سے بچنے کے لئے ضمانتوں پر ضمانتیں کروا رہا ہے اور قوم کے بچوں کو جیلیں بھرنے کے لئے اکسا رہا ہے۔

محترمہ ناصرہ کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ ایک اناڑی کے پیچھے لگنے کا یہی نتیجہ نکلنا تھا کہ عوام کے نونہال کنفیوژن کے گرداب میں پھنس کر رہ جائیں یہ کبھی اپنی بہادری کی داستانیں سناتا ہے اور کبھی مظلومیت کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے، دن کو جنہیں جانور بولتا نہیں تھکتا، رات کو انہی کے پائوں پڑا منتیں ترلے کرتا پایا جاتا ہے۔

 پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں بھی ضد میں آکر تڑوا تو بیٹھا مگر اب اس کا بس نہیں چل رہا کہ کسی طرح ان کی بھی واپسی ہو جائے، اپنے مہربانوں کے ذریعے عدالتی ایوانوں میں بھی اس نوع کی راگنی گائی گئی ہے جو ظاہر ہےمستردقرار پائی ہے کیونکہ خود کردہ را علاجے نیست۔ پوری قوم بالخصوص قوم کا نوجوان طبقہ ذہنی کنفیوژن سے گزرتے ہوئے ملک کے مستقبل سے ہی مایوس ہو چکا ہے۔ اس پریشانی میں وہ اس مملکت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر کسی کافر مغربی ملک کا رُخ کرنے کے لئے بے چین ہے۔

درویش کو حالیہ دنوں اپنے پاسپورٹ کی تجدید کے لئے پاسپورٹ آفس جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں لگی نوجوانوں کی طویل قطاریں دیکھ کر دنگ رہ گیا جس سے بات کی اس کی درد بھری کہانی تھی جس کا تازہ ثبوت اٹلی کے نزدیک چٹان سے ٹکرا کر الٹنے والی کشتی میں جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے۔

 مرنے والے ساٹھ افغانی، ایرانی اور پاکستانی نوجوانوں میں سے 30بدنصیب لاشیں ہم وطنوں کی تھیں اور یہ کوئی پہلا سانحہ نہیں۔ کیا دانشور انِ قوم ان تلخ سوالات پر غور کرنا پسند فرمائیں گے؟ کیا قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان اس لئےبنایا تھا کہ ہماری نئی نسلیں یہاں بھوکوں مریں یا پھر باہر نکل جانے کی کوشش میں ماری جائیں؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔