بلاگ
Time 05 مارچ ، 2023

امریکی سازش اور عمران خان: اصل ہدف کون؟

عمران خان نے اپنی حکومت ہٹانے کا الزام امریکا پر لگایا تھا مگر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے امریکی وفد سے لاہور میں ملاقات کر کے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ مستقبل میں وہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں۔

امریکی وفد نے عمران خان سے زمان پارک لاہور میں واقع ان کی رہائش گاہ جا کر بدھ کو ملاقات کی تھی۔ وفد میں کیلیفورنیا اسمبلی کے رکن کرس ہولڈن،وینڈی کیری،مائیک گپسن،اور ریزایلوئس اور ڈیموکریٹ رہنما ڈاکٹر آصف محمود سمیت 4 پاکستانی امریکنز بھی شامل تھے۔یہ امریکی ایوان نمائندگان یا سینیٹ کے اراکین پر مشتمل کانگریس کا وفد نہیں مگر ریاستی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل یہ اتنا غیر اہم بھی نہیں کہ اس کے ذریعے ٹھوس پیغام نہ دیا جاسکے۔

سوال یہ ہے کہ امریکا سے پینگھیں بڑھانے سے متعلق عمران خان کی بات کا کیا مطلب لیا جائے؟ کیا تدبیریں اُلٹی ہونے پر پی ٹی آئی لیڈر کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر ممکن نہیں؟ یا یہ کہ عمران خان اسی لوہے سے اتحادی حکومت کو کاٹنا چاہتے ہیں جو لوہا بقول ان کے پی ٹی آئی حکومت ختم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا؟

حقیقت یہ ہےکہ ابھی وہ کاغذ بھی میلا نہیں ہوا جو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے لہرا کر امریکا پرپی ٹی آئی حکومت کا تختہ الٹنےکی سازش کا الزام لگایا تھا۔ ڈونلڈ لو کی مبینہ دھمکیوں کا ذکر کر کے سائفر کے نام پر قوم کی غیرت جگائی تھی۔ لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اتحادی رہنما امریکا کی کٹھ پتلی ہیں جنہیں نیوٹرلز کے ذریعے پاکستان پر مسلط کر دیا گیا ہے۔

امریکی برانڈز کے کپڑے ، جوتے پہننے والے اور اپنی کابینہ میں امریکا،برطانیہ پلٹ شخصیات بھرنے والے عمران خان کا یہ بیانیہ پی ٹی آئی اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ شاید ہی کسی نے مانا ہو۔ پاکستان میں لوگ عشروں سے جانتے ہیں کہ دایاں بازو کس کا ہے۔ اس لیے سب کو پتا تھا کہ اس بار کون فیض مند ہو رہا ہے اور کون بے فیض؟

سائفر سازش بیانیہ کی فخریہ پیشکش کے چند ماہ بعد اسی لیے عمران خان نے سارا نزلہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ پر گرانا شروع کر دیا تھا کہ انہوں نے جنرل فیض حمید کو ہٹا کر حکومت کمزور کرنے کی پہلی اینٹ رکھی۔

واشنگٹن پر الزام لگانے کے 5 ماہ بعد ہی عمران خان نے امریکا کی سابق سفارت کار اور سی آئی اے کی تجزیہ کار ابن رافیل سے بنی گالا میں ملاقات بھی کر لی تھی۔ ممکن ہے اپنے لیڈر کی صحیح پیروی کر رہے ہوں اسی لیے جب فواد چوہدری پاکستان میں امریکا کے سفیر ڈونلڈ بلوم سے ملے تو جیسے عمران رافیل ملاقات کی تصویر جاری نہیں کی گئی تھی، فواد بلوم بیٹھک کا منظر بھی قوم کو نہ دکھایا گیا۔

پاکستان میں امریکی رہنماؤں سے ملاقاتوں سے کہیں پہلے امریکا میں پی ٹی آئی رہنماؤں کو فعال کیا گیا تھا جو ایک کے بعد دوسرے رکن کانگریس سے ملاقاتیں کر کے باور کراتے رہے ہیں کہ عمران خان امریکا مخالف نہیں اور یہ بھی کہ پاکستان کی سیاسی صورتحال کا نوٹس لیا جائے۔کیا یہ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے یا ہماری سیاست کا پہیہ گھومتا ہی کہیں اور سے ہے؟

کم سے کم سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے لیے جنرل پرویز مشرف سے ڈٰیل میں اس دور کی امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کا کردار سب کے سامنے ہے۔

اب امریکا میں عمران خان کے فوکل پرسن اور دیرینہ ساتھی ڈاکٹر سجاد برکی اور تحریک انصاف کی لابنگ کرنے والے نوجوان رہنما عاطف خان نے نہ صرف امریکا کے سابق وزیر خارجہ مائیک پامپیو اور ایوان کی امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین مائیک مک کال سے ملاقاتیں کی ہیں بلکہ چند ہی روز پہلے وہ ایوان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے رکن کانگریس مین جم بینکس سے بھی ملے ہیں۔

سجاد برکی اور عاطف خان چونکہ طویل عرصے سے امریکا میں مقیم ہیں اور سیاسی طورپر فعال بھی، اس لیے دونوں رہنماؤں کے ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں اراکین کانگریس سے گہرے تعلقات ہیں۔ عاطف خان اور عمران خان کی بہن علیمہ خان کی امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر کیون مک کارتھی سے چند روز پہلے ملاقات اس کا ثبوت ہے۔

پاکستان کاکس کی سربراہ کانگریس وومن شیلا جیکسن ہوں، آل گرین، ایریک سوالویل، جیک ایلیزے یا پھر ایوان کی امور خارجہ کمیٹی کے سینیئر رکن بریڈ شرمین، پی ٹی آئی امریکا کے رہنما ان سے با آسانی ملتے ہیں اور زور دیتے ہیں کہ عمران خان پر قاتلانہ حملے اور صحافی ارشد شریف کےقتل کی کانگریس میں سماعت کرائی جائے۔ پاکستان میں شفاف انتخابات، اپوزیشن کی گرفتاریوں پر آواز اٹھائی جائے ۔

امریکی اراکین کانگریس کو ہم نوا بنانے ہی کی خاطر پی ٹی آئی نے امریکا میں لابنگ فرم کی خدمات بھی حاصل کی ہیں اور ایک گروپ بنا کر منظم انداز سے عمران خان کی وکالت کی جا رہی ہے۔

کیا جیسے کونڈولیزا رائس نے اس دور کے سربراہ جنرل پرویز مشرف پر زور دیا تھا کہ پاکستان میں صاف اور شفاف انتخابات کرائے جائیں اور جلاوطن رہنماؤں کی واپسی یقینی بنائی جائے، اسی طرح اب بائیڈن حکومت کے نمائندے موجودہ اسٹیبلشمنٹ پر زور دیں گے کہ میدان سب کے لیے یکساں رکھا جائے؟

پی ٹی آئی کی لابنگ کے نتیجے میں جو بھی پیشرفت ہو یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان بڑی تجارتی ڈیل نہ اتحادی حکومت میں ممکن ہے اور نہ اُن عمران خان کے دور میں جو دورہ ماسکو کو بنیاد بنا کر یہ کہتے رہے ہیں کہ انہیں آزاد خارجہ پالیسی کی سزا دی گئی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔