موت کا سفر قبول ہے، پاکستان میں رہنا نہیں

ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں کرکٹ کے مقابلے بھی پوری چکا چوند سے جاری ہیں اور جہاں سے لوگ نقل مکانی کرتے ہوئے اپنی جان بھی گنوا رہے ہیں ۔ ملیے شاہدہ رضا سے، اِن کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تھا،یہ فٹ بال اور ہاکی کی غالباً واحد خاتون کھلاڑی تھیں جنہوں نے بیک وقت دو کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

 اِن کا ایک معذور بیٹا تھا ، وہ چاہتی تھیں کہ اُس کا علاج ہواور وہ باقی بچوں کی طرح اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے ، انہیں جو بھی تنخواہ ملتی وہ اپنےتین سال کے معذور بچے پر خرچ کردیتیں مگر گزشتہ برس جب اُن کی نوکری ختم ہوگئی تو وہ بالکل دل برداشتہ ہوگئیں اور انہوں نےبچے کے علاج کی خاطرملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ 

پہلے وہ ترکیہ پہنچیں اور پھر وہاں سے کشتی کے ذریعے اٹلی پہنچنے کی کوشش کی ،اِس سفر کے چوتھے روز تک اُن کا اپنے خاندان والوں سے رابطہ تھا اور وہ خوش تھیں کہ یہ اذیت ناک سفر ختم ہونے والا ہے مگر انہیں کیا پتا تھا کہ اُن کازندگی کا سفر ہی ختم ہوجائے گا۔ کشتی سمندر میں الٹ گئی اور شاہدہ رضا اپنے تمغوں اور شناخت سمیت ڈوب کر مرگئیں۔اخبارات میں اُن کی جو تصویر شائع ہوئی ہے اُس میں وہ پاکستانی رنگ کا سبز بلیزر پہنے ہوئے ہیں جس پر جا بجا تمغے لگے ہیں، ہر تمغہ ریاست ِ پاکستان کے چہرے پر ایک طمانچہ ہے ۔

ملیے آذان آفریدی سے ، عمر چودہ برس، پشاور کا رہائشی ۔ آذان کا ایک بھائی سویڈن میں تھا اور ماموں اٹلی میں ، وہ پہلے اپنے ماموں کے پاس جانا چاہتا تھا تاکہ وہاں سے بھائی کے پاس سویڈن پہنچ سکے مگر سویڈن پہنچنے کی بجائے یہ بچہ بھی سمندر پار کرتے ہوئے راستے میں ڈوب کر مرگیا، وہ سفر کے دوران مسلسل اپنی ماں کے ساتھ رابطے میں تھا مگر جب اُس کا رابطہ منقطع ہوگیا تو ماں بے حال ہو گئی ، اسے جھوٹ موٹ تسلی دے کر بتایا گیا کہ وہ اٹلی پہنچ گیا ہے ،اِس وقت آذان کی ماں کا کیا حال ہے میں نہیں جانتا ۔

ملیے اسد نعیم سے ، خوش شکل اورا سمارٹ ،گوجر خان کا رہائشی، اپنے کاروبار کا مالک ۔کہتا تھا کہ پاکستان میں جتنی بھی محنت کرلو کچھ نہیں بنتا، اتنی محنت یورپ میں کروں تو اچھے پیسے کما سکتا ہوں۔ اُس نے ایک ایجنٹ کو 23 لاکھ روپے دئیے جس نے وعدہ کیا کہ وہ اسے قانونی طریقے سے ہوائی سفر کے ذریعے یورپ پہنچائے گا۔اسد نعیم اُس وقت تاجکستان تھا ، وہاں سے وہ لیبیا پہنچا جہاں سے ،بقول ایجنٹ ،سفر شروع ہونا تھا ، مگر پھر اسے مجبوری کے عالم میں کشتی کے ذریعے سفر کرنا پڑا، اِس کشتی میں آٹھ سے دس افراد کی گنجائش تھی مگر ایجنٹ نے اِس میں تیس افراد ٹھونس دئیے ،کشتی کھلے سمندر میں بمشکل ڈیڑھ کلومیٹر تک گئی اور پھر الٹ گئی ، اسد نعیم وہیں ڈوب کر مرگیا۔

شاہدہ رضا ،آذان اور اسد نعیم جیسے ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جو اپنے ملک سے مایوس ہو کر’ ’ہر قیمت پر‘‘ باہر سیٹل ہونا چاہتے ہیں ، اِن میں سے چندہی خوش قسمت ایسے ہوتے ہیں جو بحفاظت یورپ پہنچ پاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اِس سفر کا خطرہ مول لینا چاہیے ، انگریزی میں بولیں تو Is it worth taking this risk? اِس سوال کا جواب دینے کے لیے ضروری ہے کہ آپ The Swimmersنامی فلم دیکھیں ۔یہ فلم دو بہنوں کی حقیقی زندگی پر بنائی گئی ہے ، یہ دونوں لڑکیاں شام کی رہائشی تھیں ، بہترین تیراک تھیں، اِن کے باپ کی خواہش تھی کہ وہ اپنے ملک کی طرف سے اولمپک میں شرکت کریں، بد قسمتی سے شام میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور اِن دونوں لڑکیوں نے شام سے جرمنی جانے کا فیصلہ کیا، پہلے یہ بذریعہ جہاز استنبول پہنچیں، وہاں انہیں مختلف ممالک کے اور لوگ بھی مل گئے جو یورپ جانا چاہتے تھے ۔

یہیں سے اُن سب کا اذیت ناک اور دل دہلا دینے والا سفر شروع ہوتا ہے ،ایک ایجنٹ اُن تیس پینتیس لوگوں کو ایک خستہ حال کشتی میں ٹھونس دیتا ہے، کشتی سمندر میں ڈوبنے سے بال بال بچتی ہے ، ایک موقع پر کشتی میں سے کسی کا فون کام کرجاتا ہے اور وہ یونان کی ساحلی پولیس سے مددکی درخواست کرتے ہیں مگر آگے سے ’کورا ‘ جواب ملتا ہے کہ یہ حکومت کی پالیسی نہیں ،بدقت تمام وہ لوگ یونان کے ایک جزیرے تک پہنچ پاتے ہیں ۔ 

وہاں سے پھر ایک ایجنٹ انہیں ہنگری کی سرحد پار کروانے کے عوض پیسے لیتا ہےاور یوں وہ ہنگری سے جرمنی کی سرحد میں داخل ہوجاتے ہیں۔ میں نے تین سطروں میں یہ کہانی لکھ تو دی ہے مگر حقیقت اِس سے کہیں زیادہ خوفناک ہے ۔ جو لوگ سمندر کے راستے غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخل ہونا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ ایک مرتبہ یہ فلم ضرور دیکھیں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ اصل میں یہ سفر کس قدر کٹھن اور خطرات سے پُر ہے ۔

 انسانی اسمگلر دراصل بہت چالاکی سے معصوم لوگوں کو یہ کہہ کر شیشے میں اتارتے ہیں کہ سب کام قانونی ہوگا اور انہیں بہترین کشتی کے ذریعے بحفاظت یورپ پہنچایا جائے گا، مگر جب یہ لوگ ترکیہ کے ساحل پر پہنچتے ہیں تو انہیں پتا چلتا ہے کہ اُن کے ساتھ دھوکہ ہو چکاہے مگر اُس وقت واپسی تقریباً نا ممکن ہوتی ہے ۔

آخر لوگ اپنے ملک سے اِس قدر مایوس کیوں ہیں کہ اپنی جان پرکھیل کرملک چھوڑنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں ؟ انسان امید پربھی جی لیتے ہیں بشرطیکہ ملک کی سمت درست ہو، لیکن یہاں تو گزشتہ پچھتر برس سے ہی سمت درست نہیں بلکہ سچ پوچھیں تو ہمارے پاس سمت بتانے والا آلہ ہی نہیں۔

آج کی تاریخ میں جب ہم کوڑی کوڑی کے محتاج ہوچکے ہیں اور ایک ایک ڈالر کے لیے دنیا کی منتیں کرتے پھر رہے ہیں ،ہم نے کرکٹ کا میلہ سجایا ہوا ہے جس میں غیر ملکی کھلاڑیوں ، ایمپائرز اور کمنٹری کرنے والوں کو لاکھوں ڈالرمحض اپنی تفریح کے لیےادا کر رہے ہیں،کون سی قیامت آجانی تھی اگر اِس مرتبہ کرکٹ کا یہ میلہ نہ ہوتا!ہماری انہی حرکتوں کی وجہ سےدنیا ہم سے بیزار ہوچکی ہے اور اپنے ملک کے شہری نا امید ہوچکے ہیں ۔انہیں ٹوٹی ہوئی کشتی میں بحیرہ روم کا سفر کرنا قبول ہے مگر اِس ملک میں رہنا قبول نہیں جہاں کا حکمران طبقہ نہ صرف نالائق ہے بلکہ بد نیت بھی ہے ، فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ نالائق زیادہ ہے یا بد نیت !


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔