عدالتی فیصلہ، انتخابات اور ملکی حالات

سپریم کورٹ نے 90دن کے اندر پنجاب اور کے پی میں انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے،سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس سوموٹو کے نتیجے میں آیا ہے جس کا مشورہ سپریم کورٹ کے دو جج صاحبان نے دیا تھا اور یہی عمران خان کا وہ مطالبہ تھا جس کی خاطر وہ چار ماہ تک ٹانگ پر پلستر چڑھائے گھر میں بند رہے لیکن جیسے ہی فیصلہ آیا، ان کی ٹانگ فوری طور پر ٹھیک ہو گئی۔ پلستر اتر گیا اور اب تو انہوں نے انتخابی مہم کی خود قیادت کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

 یہ ساری صورت حال دیکھتے ہوئے یہ تاثر مزید پختہ ہو رہا ہے کہ یہ انتخابات صرف عمران خان کی خواہش پر ہوں گے۔ ورنہ ملکی معاشی صورت حال اور ملک میں امن و امان کے حالات ان انتخابات کے متحمل ہر گز نہیں ہو سکتے کہ فرد واحد کی خواہش پوری کرنے کیلئے عوام پر مزید ایک ایسا بوجھ ڈالا جائے جو پہلے ہی مہنگائی کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 

دہشت گردی کے واقعات پھر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ملک کی سرحدوں پر سکون کی فضا نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے کہ انوکھے لاڈلے کی چاند مانگنے کی خواہش پوری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ یہ فیصلہ عدالت کی طرف سے آیا ہے اوراس فرد کیلئے جو مخالف اور ناپسندیدہ فیصلوں پر عدالتوں کی مانتا ہے نہ قانون کو۔ وہ شخص جو عدالتوں میں حاضر ہی نہیں ہوتا بلکہ عدالتیں اس ملزم کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ 

بہرحال یہ عدالتی فیصلہ ہے سر آنکھوں پر لیکن عجیب بات یہ ہے کہ کسی نے عمران خان سے یہ نہیں پوچھا کہ چارماہ پہلے انہوں نے پنجاب اور کے پی میں چلتی ہوئی اسمبلیاں کیوں تحلیل کیں؟ اس سے پہلے قومی اسمبلی سے مستعفی کیوں ہوئے؟ اور ان استعفوں کی منظوری کا پر زور مطالبہ کیوں کرتے رہے اور پھر انہی استعفوں کی واپسی کیلئے عدالت کیوں گئے؟ یہ بھلا کون سی جمہوریت اور کون سی سیاست ہے۔ یہ تو ملک و قوم کے ساتھ جمہوری سیاسی کھلواڑ ہے، اس عدالتی فیصلے کو دیکھا جائے تو اس میں جج صاحبان کے درمیان اختلاف رائے بہت واضح ہے۔ شکوک و شبہات سے پاک فیصلہ وہ سمجھا جاتا ہے جو اتفاق رائے سے دیا جائے۔

سپریم کورٹ کے پنجاب اورکے پی میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کے فیصلے میں جج صاحبان کا اختلاف رائے نہایت واضح ہے کیونکہ بینچ کے دو ارکان جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے اس کیس کو ناقابلِ سماعت قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس نو رکنی بینچ میں شامل دو جج صاحبان جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصو ر علی شاہ نے اس فیصلے سےاختلاف کیا۔

 13؍ صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں ان دو مذکورہ جج صاحبان کا دو صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل ہے جب کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اس وجہ سے نیا پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ، جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منظور علی شاہ شامل تھے۔ ان میں سے آخرالذکر دو جج صاحبان نے اس فیصلے سے اختلاف کیا جب کہ تین جج صاحبان نے اتفاق کیا۔ اس کے علاوہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان میں سے کسی بینچ میں شامل نہیں کیا گیاجب کہ اس فیصلے کیلئے دو بار بینچ تشکیل دیا گیا۔

اس لحاظ سے از خود نوٹس سے لے کر نو رکنی اور پھر پانچ رکنی بنچ بننے تک بھی یہ عمل متنازعہ رہا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو تمام بینچوں سے ہٹایا جاتا رہا ۔ دوسری طرف صدر عارف علوی کے اسمبلی کی غیر قانونی تحلیل کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کو ان سے الیکشن کیلئے مشورہ کرنے کا کہہ دیا گیا۔

اب سوال یہ بھی ہے کہ اگر 90دن میں الیکشن نہ ہو سکےتو کیا ہو گا۔ ایسی صورت میں آرٹیکل 218اور 254کے تحت الیکشن کمیشن تاخیر کا جواز پیش کر سکتا ہے۔ ملک میں مردم شماری کی تکمیل سے قبل اگر الیکشن کرائے جاتے ہیں تو لاکھوں کی تعداد میں وہ لوگ ووٹ دینے کے حق سے محروم نہیں ہو جائیں گے جو اب ووٹ دینےکے اہل بن گئے ہیں اور کیا نئی مردم شماری کی تکمیل کے بعد نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت نہیں ہو گی۔؟ کوئی جماعت اس نکتے کامطالبہ بھی کر سکتی ہے۔

 اس کے علاوہ آئی ایم ایف پروگرام اور سکیورٹی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ابھی یہ الیکشن کراناصرف فنڈز کا ضیاع اور بے محل ہے۔ وفاق اور صوبوں میں حکومتیں قائم ہیں۔ ملکی نظام چل رہا ہے ۔ کوئی عمران خان سے یہ بھی پوچھے کہ اگر یہ الیکشن ہوجائیں اور ان کی جماعت کو اکثریت مل بھی جائےتو کیااس سے ملک کو فائدہ ہو گا بلکہ الٹا نقصان ہی ہو گا۔؟ 

سیاسی عدم استحکام ان ہی کا تو پیدا کردہ ہے۔ معاشی صورتحال کو اس مقام تک لانے میں ان کا ہی تو کردار ہے جو روز روشن کی طرح عیاں ہے۔عمران خان ملک میں انقلاب اور تبدیلی کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن ناکام ترین جیل بھرو تحریک کے دوران خود عدالتوں سے ضمانتیں کرواتے رہے۔

 گزشتہ روز اسلام آباد پولیس جب لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر ایک عدالتی حکم کی تکمیل کیلئے پہنچی تو وہ ان سے ملنے کی جرأت نہ کر سکے او رروپوش ہو گئے۔ پولیس کے واپس جانے کے بعد نہ صرف اپنی رہائش گاہ میں موجود پائےگئے بلکہ وہاں مدعو کارکنوں سے خطاب بھی کیا جس کو ساری دنیا نے دیکھا۔ اپنے خطاب میں سیاسی مخالفین اور ادارے کے اعلیٰ افسر کے خلاف ایک بار پھر ناقابل بیان گفتگو کی لیکن بار بار ایسی نازیبا گفتگو اور حرکات کے باوجود وہ شتر بے مہار ہیں ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔