Time 13 مارچ ، 2023
بلاگ

اسلام کی بات کرتے ہوئے ڈر کیسا؟

آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے حال ہی میں ایک بہت خوش آئند فیصلہ کیا گیا جس کے مطابق وہاں موجود تمام مخلوط تعلیمی اداروں میں خواتین اساتذہ اور طالبات کیلئے پردہ کو لازم قرار دے دیا گیا ہے۔ 

محکمہ تعلیم کی طرف سے جاری کئے گئے حکم نامہ کے مطابق اس فیصلہ کی خلاف ورزی کی صورت میں متعلقہ تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ یہ خبر ایک ٹی وی چینل نے نشر کی اور آزاد کشمیر حکومت کے وزیر تعلیم کوٹیلیفون پر لے لیا تاکہ پوچھا جائے کہ اس حکم نامہ کو جاری کرنے کی کیوں ضرورت پڑی۔ ؟اس سوال پر وزیر تعلیم نے بڑا زبردست جواب دیتے ہوے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ اس لئے کیا کہ اسلام ہمیں اس کا حکم دیتا ہے۔ 

اس پر میں نے فوری ایک دو ٹیوٹس کئے جس کا مقصد نہ صرف آزاد کشمیر کی حکومت کی حوصلہ افزائی کرنا تھا بلکہ اُنہیں اس بات سے آگاہ کرنا بھی تھا کہ ہو سکتا ہےاب روشن خیال میڈیا اور طبقہ کی طرف سے آپ پر دباو ڈالا جائے جس کو حکومت خاطر میں نہ لائے۔ میں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی تمام مخلوط تعلیمی اداروں کیلئے یہی ہدایات جاری کرنی چاہئیں۔ 

پاکستان کے تعلیمی اداروں خصوصاً کچھ پرائیوٹ سکولوں اور یونیورسٹیوں کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں جس پر میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں لیکن افسوس کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے ان تعلیمی اداروں کے ماحول کو درست کرنے اور اُنہیں منشیات سے پاک کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی بلکہ الٹا چند دن پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ ملک کی انتظامی مشینری کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جانے والی سول بیوروکریسی کی تربیت اور ٹریننگ کیلئے اہم ترین ادارے سول سروس اکیڈمی لاہور میں ہولی کی تقریب منائی گئی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی اکیڈمی کی انتظامیہ کے ایک اہم عہدہ دار کی ٹک ٹاک وڈیو بھی سامنے آئی جس میں وہ کسی

عام ٹک ٹاکر کی طرح ایک انڈین گانے پر ڈانس کر رہا تھا۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ ہفتہ اگرچہ اس عہدہ دار کو تبدیل کر دیا گیا لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ پاکستان کی بیوروکریسی کی اعلیٰ ترین تربیت گاہ میں اور اس کو چلانے والے لوگ اگر ہولی منائیں گے، ٹک ٹاکرز کو فالو کریں گے تو پھر اس ملک کا کیا مستقبل ہو گا۔ اگر سوشل میڈیا پر یہ سب کچھ سامنے نہ آتا تو نجانے کب تک یہی کچھ چلتا رہتا۔ 

جب سرکاری افسران کی تربیت ایسی ہو گی تو پھر یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ ہم پاکستان کے قیام کے خواب (یعنی اسلامی فلاحی ریاست) کو کیسے پورا کر سکتے ہیں۔ چند دن پہلے میں نے اسلام آباد انتظامیہ کے ایک افسرسے رابطہ کیا اور توجہ دلائی کہ اسلام آباد میں کئی ایک جم ایسے ہیں جہاں خواتین کیلئے مخصوص ٹائم مختص ہونے کے باوجود مردوں کے ساتھ خواتین کو ایک ساتھ ایکسرسائز کرنے کی اجازت ہے۔ میں نے درخواست کی کہ مناسب ہو گا کہ مردوں اور خواتین کیلئے علیحدہ علیحدٹائم مختص کئے جائیں اور مخلوط جم کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ اس پر مجھے کہا گیا کہ اسلام آباد کلب میں بھی خواتین کیلئے مختص علیحدہ اوقات کار کے باوجود مرووں کے ساتھ خواتین کو جم استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ 

انتظامیہ کا افسر مجھے یہ بھی کہنا لگا کہ اگر ہم نے وفاقی دارلحکومت میں مخلوط جم پر پابندی لگانے اور مردوں اور خواتین کے لئے علیحدہ علیحدہ اوقات کار کے بارے میں کوئی ہدایت جاری کر دی تو اس پر شور مچ جائے گا۔ میں نے کہا کہ ہم ایک اسلامی ملک ہیں،پاکستان کا آئین پڑھ لیں تو پھر شور مچانے والوں سے ڈر کیوں؟؟ جس پر وہ اہلکار ہنسنے لگا اور کہا کہ آپ کس آئین کی بات کر تے ہیں؟ 

مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسلام کی بات کرتے ہوئے، آئین پاکستان کی اسلامی شقوں کے نفاذ کی بات کرتے ہوے گھبراتے ہیں، ڈرتے ہیں کہ روشن خیال طبقہ نجانے کیا کہے گا، میڈیا نجانے کیا سکینڈل بنا دے گا؟ اور اس ڈر میں ہم ایک طرف پاکستان کے قیام کے خواب سے غداری کر رہے ہیں اور دوسری طرف اپنے معاشرے کو تباہی کے رستے پر ڈال دیا ہے۔ اسلام ہمارا فخر ہے اور فخر ہی رہنا چاہئے۔ اسلامی اصولوں کی پاسداری کا مطالبہ کرنے والوں کو نہیں بلکہ ان اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بیک فٹ پر ہونا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔