14 مارچ ، 2023
تحریک انصاف کے فعال کارکن علی بلال عرف ظل شاہ کی پراسرار ہلاکت کی تحقیقات کی گتھی حکومت اور تحریک انصاف کی جانب سے اختیار کی گئی غیر سنجیدہ حکمت عملی کی وجہ سے اس قدر پیچیدگیوں میں الجھتی دکھائی دے رہی ہے کہ اس کا کوئی سرا ہاتھ نہیں لگ رہا۔
دونوں اطراف سے اپنے اپنے مؤقف کے حق میں پیش کئے جانے والے دلائل اور شواہد کوئی حتمی رائے قائم کرنے کے لئے ناکافی ہیں تاہم ان مبہم شواہد کی روشنی میں کوئی ایسا "کھرا" تلاش کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے اصل حقائق تک پہنچا جا سکتا ہے۔لیکن تاثر یہ ہے کہ تحریک انصاف کسی قیمت پر علی بلال کی ہلاکت کو حادثہ تسلیم نہیں کرے گی اور روشن دن کو بھی اندھیری رات قرار دینے کی "سیاسی ضد" پر اڑی رہے گی۔
ایسے حالات میں جب حالات موفقت میں نہ ہوں تحریک انصاف تحقیقاتی ادارے یا جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کیونکر قبول یا تسلیم کرسکتی ہے اور پولیس کے خلاف حکومت کے زیر انتظام کسی بھی ادارے کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے اس موقف پر قائم رہ سکتی ہے کہ علی بلال کی ہلاکت پولیس تشدد سے ہوئی لیکن اس سوال کا جواب موجود نہیں کہ تشدد کا یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا؟
تحریک انصاف پولیس کے اس مؤقف کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکی جس میں سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج کی بنیاد پر بیان کیا گیا ہے کی علی بلال کی ہلاکت تحریک انصاف کے ایک صوبائی لیڈر راجہ شکیل کی ڈبل کیبن کی ٹکر سے ہوئی اور اسی گاڑی میں اسے تاخیر سے ہسپتال پہنچایا گیا۔ البتہ تحریک انصاف کا دعویٰ درست ہے کہ پولیس نے بلال کی ہلاکت سے قبل اسے تحریک انصاف کے چند کارکنوں کے ہمراہ حراست میں لے کر پولیس کے ڈالے میں سوار کیا تھا لیکن اس کے جواب میں پولیس اس دعویٰ کا کوئی ثبوت پیش نہ کر سکی کہ بلال سمیت گرفتار کئے گئے تمام کارکنوں کو راستے میں ہی چھوڑ دیا تھا۔
پولیس اس بات کی وضاحت اس انداز میں کرتی ہے کہ علی بلال سمیت حراست میں لئے گئے افراد کو راستے میں چھوڑا نہیں گیا تھا بلکہ وہ موقع پاکر ایک ایک کرکے فرار ہوگئے تھے۔ حادثے کے بعد پولیس نے فرار ہونے والوں میں سے دو کو گرفتار کرلیا تھا جنہوں نے یہ گواہی دی ہے کہ فرار کے بعد بلال بالکل ٹھیک تھا۔ بلال کے والد نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے بیٹے نے ٹیلیفون پر اپنی گرفتاری کی اطلاع دی تھی۔ بلال کے والد لیاقت علی نے منصور علی خان کے پروگرام میں بتایا "4:35 بجے شام کسی نمبر سے بلال کا فون آیا جو میرے بڑے بیٹے نے سنا۔ بلال نے بتایا کہ وہ گرفتار ہو گیا ہے، جلد آجائے گا لیکن امی ابو کو نہیں بتانا۔
اس کے بعد 7:31بجے رات فون آیا کہ آپ کا بیٹا شہید ہوگیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ شہادت کیسے ہوئی۔" لیکن تحریک انصاف کے زعماء یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ حادثے کے بعد ڈبل کیبن کے مالک راجہ شکیل نے یاسمین راشد سے رابطہ کیا اور اس کی گاڑی کی ٹکر سے انہی کے کارکن علی بلال کی ہلاکت سے آگاہ کیا یہ بھی بتایا کہ اسی ڈبل کیبن میں ڈالے کا ڈرائیور) غالباً(جہانزیب اس کو شدید زخمی یا مردہ حالت میں ہسپتال چھوڑ کر آیا تھا، تو یاسمین راشد نے خاموشی اختیار کرنے اور ڈبل کیبن کے ڈرائیور کو ادھر ادھر کرنے کی ہدائت کی اور راجہ کو ساتھ لے کر زمان پارک آگئیں جہاں عمران خان کی مشاورت سے علی بلال کی پولیس تشدد سے ہلاکت کا ڈرامہ تیار کیا گیا۔پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے مقدمہ کے اصل حقائق تک رسائی حاصل کرتے ہوئے تحریک انصاف کے اس الزام کی نفی کرنے کے لئے تمام سائنسی اور زمینی شواہد حاصل کرتے ہوئے "سیاسی ڈرامے کا ڈراپ سین" کر دیا ہے۔اس سلسلے میں بقول ایس۔
ایس پی عمران کشور، راجہ شکیل کی تیز رفتار ڈبل کیبن نے جسے جہانزیب چلا رہا تھا، سڑک کے کنارے چلتے ہوئے علی بلال کو پیچھے سے ہٹ کیا اور اس کا سر سڑک کے ڈیوائیڈر سے ٹکرایا جو اس کی موت کا سبب بنا۔
پولیس نے راجہ شکیل اور جہانزیب سمیت بیشتر افراد کو حقائق چھپانے اور زخمی کو تاخیر سے ہسپتال پہنچانے کی وجہ سےاس کی موت کا سبب بننے کے الزامات میں گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ملزموں نے اعتراف جرم کر لیا ہے اور یہ بھی تسلیم کر لیا ہے علی بلال کی موت ان کی گاڑی کی ٹکر سے واقع ہوئی ہے۔توقع ظاہر کی جا رہی ہے یاسمین راشد کو بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔
اس کے لئے تھانہ سرور روڈ میں ایک علیحدہ مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔سیاسی مخالفین تحریک انصاف کی جانب سے رچائے گئے اس ڈرامے کو "نابالغ سیاست کی ایک مثال" گردانتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ پارٹی ایسے غیرنظریاتی گروپوں کا ملغوبہ ہے جو صرف اقتدار حاصل کرنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھے ہوئے ہیں۔یہ بات عمران خان کی گرفتاری کے بعد چوہدری پرویز الہٰی، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے درمیان ہونے والی رسہ کشی کی صورت میں واضع ہو گی۔فاروق اقدس کی خبر کے مطابق اس رسہ کشی میں پرویز خٹک،فواد چوہدری، اعظم سواتی اور مراد سعید بھی شامل ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔