بلاگ
Time 18 مارچ ، 2023

ہمارا مستقبل کیا ہے؟

ہمارے سابق ہونہار کھلاڑی میں کوئی اور خوبی ہے یا نہیں اس پر بحث ہو سکتی ہے لیکن ایک خوبی سب پر واضح ہو جانی چاہئے کہ وہ کسی بھی سلیبرٹی سے بڑھ کر خبروں میں رہنے کا فن خوب جانتے ہیں۔ وہ جب کرکٹ کے کھلاڑ ی تھے تب بھی اگرچہ بولنگ کے لئے ان کا پٹھا اکثر اترا رہتا تھا لیکن کسی نہ کسی بہانے چاہے وہ کوئی اسکینڈل ہی کیوں ہو، میڈیا میں چھائے خبروں کی زینت بنے رہتے تھے۔

اس کے بعد جب وہ سیاست کے میدان میں کودے تب بھی گو ان کے پاس ایک سیٹ تک نہ ہوتی تھی تاہم بعد ازاں جنرل پرویز مشرف کی مہربانی سے وہ اسمبلی میں پہنچنے کے قابل ہوگئے مگر اخبارات دیکھتے تو یوں محسوس ہوتا کہ شاید ٹوتھرڈ میجارٹی والا اتنا پاپولر نہیں ہے جتنا یہ شیخ جیسی ایک سیٹ کی سواری والا۔ انہی دنوں درویش نے زمان پارک والے گھر میں ان کا ایک طویل دورانیے کا انٹرویو کیا تھا ، آج اگر اس انٹرویو کی تفصیلات ناچیز یہاں درج کرے تو ہمارے اخبار میں شاید یہ کالم چھپنے نہ پائے گا۔

حکمرانی کے خواب اس وقت بھی بہت اونچے تھے اور دعوے بلند بانگ، سیاست میں اپنا مقام بنانے کے لئے آخری حدود تک جانے کو تیار تھے، انہی دنوں ان کی جمائما گولڈ اسمتھ سے ناچاقی کی خبریں بھی میڈیا میں آ رہی تھیں وجوہ معلوم کرنے کے لئے کئے گئے سوال پر جواب ملا کہ وہ اپنے لئے جتنا ٹائم مانگتی ہے میں اسے وہ دے نہیں سکتا کیونکہ میں تو اپنا زیادہ سے زیادہ وقت سیاست میں لگانا چاہتا ہوں، درویش سے رہا نہ گیا، کہا کہ آپ کون ساسیاست راجیو گاندھی کے لیول کی کر رہے ہیں ،اس لئے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ایسی جان ماری کی بجائے اپنے کنبے کو سنبھالیں، اپنے گھر کو ٹوٹنے سے بچائیں اور زیادہ سے زیادہ وقت بچا کر جمائما بی بی کی دلجوئی کریں جو آپ کی خاطر اپنا ملک، مذہب، کلچر اور خاندان چھوڑ کر یہاں آئی ہے۔ 

بہرحال اس کا کیا جواب ملا اور کھلاڑی نے کیوں اپنے ہاتھ سے ٹیپ ریکارڈر بند کردیا اس پر ضرور کسی مناسب موقع پر بات کی جائے گی۔ آج کے کالم کا اصل مدعا آج کی صورتحال کو زیر بحث لانے کا تھا جس طرح پنجابی میں کہتے ہیںکہ بعض لوگ گلاں دے سیانے ہندے نیں(کچھ لوگ باتوں کے فن میں ماہر ہوتے ہیں) اور ہمارے عام لوگ بالعموم باتوں کے جھانسے میں ہی آتے ہیں ، اصل حقائق کیا ہیں؟چرب زبانی کی عملی حقیقت یا حیثیت کیا ہے؟ لوگوں کے پاس اتنی تفصیلات میں جانے کے لئے وقت ہی نہیں ہوتا۔

ایک طرف بڑی بڑی تاریخی ہستیوں کی مثالیں دیتے ہوئے عدل و انصاف کی دہائیاں دی جاتی ہیں ، میری بیٹی بھی ایسےکرے تو ایسے ہو جائے، دو نہیں ایک پاکستان، قانون سب کے لئے برابر، میں بڑا ایماندار، میں بڑا صادق و امین، میرے مخالف تو سب بزدل، میں بڑا بہادر، میں جیل جانے سے نہیں ڈرتاکیونکہ میرا دامن صاف ہے۔

دوسری طرف یہ بھاشن کہ میں گرفتاری تو دے دیتا مگر انہوں نے میرا وہ حشر کرنا تھا جو اعظم سواتی اور شہباز گل کے ساتھ ہوا اس لئے میرے کارکنو! آپ کے لیڈر کی جان کو خطرہ ہےآپ میرے گھر سے باہر سڑکوں پر نکلو اور مقابلہ کرنے کے لئے ڈٹ جائو۔ اگر کسی سر پھرے نے میرے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری نکال رکھے ہیں تو اسے ناکام بنا دو، میں جیل جانے سے نہیں ڈرتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے میرے ساتھ سلوک بہت برا کرنا ہے۔

درویش کو یہاں تاریخ میں گزرا ایک شخص یاد آ رہا ہے جو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ہولوکاسٹ والے یہودیوں جیسا سلوک بھی جائزہ روا رکھتا تھا بلکہ اس پر پوری طرح عمل پیرا رہا مگر جب ناکامی کی صورت میں خود کو سرنڈر کرنے یا گرفتاری دینے کا وقت آیا تو رونے لگا کہ ان لوگوں نے میرے ساتھ بہت برا سلوک کرنا ہے، اس لئے میں ان کے ہتھے نہیں چڑھنا چاہتا، یہاں کوئی بھلا مانس یہ پوچھے کہ جو سلوک تم اپنے ساتھ پسند نہیں کرتے ہو وہ دوسروں کے ساتھ کرنا کیوں ضروری سمجھتے ہو؟

آپ کو کس نے کہا تھا کہ کارکنوں کے بھیس میں گلگت فورس لاہور پولیس کے مقابلےمیں لے آئو؟ اور قانون کو ہاتھ میں لے کر ریاستی اہل کاروں پر پٹرول بم پھینکو، باقاعدہ جھڑپیں کرتے ہوئے سرکاری گاڑیاں اور املاک جلائو، سڑکوں پر لگی فینسی لائٹس توڑو یا ٹریفک وارڈنز کی موٹر سائیکلیں جلائو؟ شدت پسندوں کو اپنی حفاظت کے لئے یہاں تعینات کرو اور نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ آپ کی اپنی صفوں سے کئی لوگ چلانے لگیں کہ صورتحال مزید خراب ہوئی تو دونوں اطراف کے کئی لوگ مر جائیں گے اور الیکشن بھی ملتوی ہو جائیں گے۔

آپ تو شاید تمام حدود کو پھلانگ جانے کی ہمت و طاقت رکھتے ہیں جس طاقت ور کے حوالے سے اب تک بات اشاروں کنایوں میں کی جاتی تھی آپ عالمی میڈیا کے سامنے یوں کھل کر بے باکی سے اس کا نام لے کر اسے خرابی بسیار کا مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، ملک معاشی دلدل میں گرا پڑا ہے ایٹمی پروگرام پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں لیکن مجھے کیا، مجھے تو بہرصورت اقتدار چاہئے۔ 

قانون کا احترام بس یہاں تک ہے کہ نوے دن میں انتخابات ہوں ، آئین کا بس یہی واحد تقاضا ہے۔ پوچھا جاتا ہے کہ کیا قومی سلامتی بھی آئینی تقاضا ہے یا نہیں؟ حکومتی عہدوں پر براجمان کہہ رہے ہیں کہ انتخابات سے پہلے مردم شماری بھی آئینی تقاضا ہے۔ اس کا کیا کرنا ہے؟جب خزانے میں مطلوبہ پیسے ہی نہیں ہوں گے تو انتخابی انتظامات و اخراجات کون کرے گا؟ انصاف کی بڑی ہستی آپ کی اپنی ہے تو وہ کیا کرے گی؟ ایسے کسی انتخابی التوا کی صورت میں وہ یقیناً کمزور وزیر اعظم کو گھر بھیج دے گی۔ ایسی صورت میں نونی تو شاید مکتی پا جائیں مگر تیرا کیا ہوگا کالیا؟ جیسی صورتحال بنتی دکھتی ہے، اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ایسی جنونیت کے ہاتھوں میں حساس ذمہ داریاں سونپی جا سکیں گی؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔