فیکٹ چیک: کیا چیئرمین واپڈا نے بانی پاکستان اور اپنی تصویر ایک ساتھ لگانے کا حکم دیا تھا؟

نوٹیفکیشن مستند ہے، تاہم واپڈا کا کہنا ہے کہ دفاتر میں تصاویر ایک ساتھ لگانے کاحکم نہیں دیاگیا تھا۔

متعدد سوشل میڈیا صارفین نے الزام عائد کیا ہے کہ واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا)نے اپنے ملازمین کو حکم دیا ہے کہ وہ بانی پاکستان قائداعظم کی تصویر کے ساتھ اپنے چیئرمین کی تصویر بھی آویزاں کریں۔

یہ دعویٰ گمراہ کن ہے۔

دعویٰ

11 مارچ کو سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنے تصدیق شدہ ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کیا کہ ”یہ وہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل سجاد غنی صاحب ہیں جنہوں نے حکم جاری کیا ہے کہ واپڈا کے تمام دفاتر میں قائد کی تصویر کے ساتھ میری تصویر بھی لگائی جائے۔“

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں مزید لکھا کہ” قائد نے تو پاکستان بنایا تھا آپ اپنا کارنامہ بتاسکتے ہیں؟“

اس ٹوئٹ کو اب تک تقریباً 3,000 مرتبہ ری ٹویٹ کیا جا چکا ہے۔

ایک اور ٹوئٹر صارف نےبھی اس سے ملتا جلتا دعویٰ اپنی ٹوئٹ میں شئیر کیا۔

حقیقت

پاکستان میں پانی اور بجلی کی دیکھ بھال کے ذمہ دار وفاقی ادارے واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا)نے واقعی ہی 14 فروری کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیاجس میں اپنے دفاتر کو قائد اعظم محمد علی جناح اور چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل سجاد غنی کی تصاویر آویزاں کرنے کی ہدایت کی گئی۔

نوٹیفکیشن میں لکھا گیا ہے کہ ’’تصاویرآپ کے پروجیکٹ/دفتر/ اداروں میں مناسب جگہ پر آویزاں کیے جائیں گے۔

واپڈا نے اس نوٹیفکیشن کی سچائی کی تصدیق کی ہے۔

تاہم واپڈا کے تعلقات عامہ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل محمد عابد رانا نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ حکم یہ نہیں تھا کہ تصاویر ایک ساتھ لگائی جائیں۔ انہوں نے ٹیلی فون پرجیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ ”یہ لکھا ہوا ہے کہ ان کو کسی مناسب جگہ پر لگائیں،  لفظ مناسب جگہ ہے، یہ تو نہیں لکھا کہ اکٹھا لگا دیں۔“

ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن منگلا کے ایک اہلکار نے بھی تصدیق کی کہ یہ نوٹیفکیشن واقعی جاری کیا گیا تھا۔

تاہم جیو فیکٹ چیک کو موصول ہونے والی نوٹیفیکیشن کی ایک کاپی کے مطابق یہ حکم 10 مارچ کو واپس لے لیا گیا۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ” 14 فروری کا نوٹیفکیشن واپس لیا جاتا ہے، اس میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویرآپ کے پراجیکٹ/دفتر/ادارے کی سب سے نمایاں جگہ/مقام پر آویزاں کی جائے۔“

نئے نوٹیفکیشن میں واپڈا کے چیئرمین کی تصویر کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔