25 مارچ ، 2023
پاکستان پاپولیشن کونسل کے سنیئر ڈائریکٹر ڈاکٹر علی میر کا کہنا ہے کہ نوجوان ماؤں میں دوران زچگی اموات کی بڑی وجہ اسقاط حمل ہے۔
غیر سرکاری تنظیم پاکستان پاپولیشن کونسل کی جانب سے آگاہی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں 15 سے 19 سال کی نوجوان شادی شدہ خواتین کی تولیدی صحت کی ضروریات پوری نہ ہونے اور مانعِ حمل طریقوں کی عدم دستیابی کے باعث سالانہ اس عمر کی 3 لاکھ 97 ہزار خواتین حاملہ ہوتی ہیں جس میں ایک لاکھ 26 ہزار ماؤں کی ڈلیوری کسی طبی مرکزِ صحت یا اسپتال میں نہیں ہوتی۔
تقریب میں بتایا گیا کہ پاکستان میں نوجوان ماؤں میں دوران زچگی اموات کی دوسرے بڑی وجہ اسقاطِ حمل ہے اور اس عمر میں ہونے والے 36 فیصد حمل غیر اِرادی ہوتے ہیں جن میں سے 58 فیصد کا اختتام اسقاطِ حمل پر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر میر علی کا کہنا تھا پاکستان میں نوجوانوں کے تولیدی صحت کی خدمات میں کمی اور مانعِ حمل طریقوں کی رسائی میں کمی کے نتیجے میں بچے کی پیدائش میں کم وقفہ، زچگی و حمل کی پیچیدگیاں اور دورانِ زچگی اموات اور معذوری جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ان مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے تقریب کے دوران پاکستان کا موازنہ دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پاپولیشن کونسل کے سنیئر ڈائریکٹر ڈاکٹر علی میر نے کہا کہ نوجوان شادی شدہ خواتین کو تولیدی صحت کے بارے میں درست، قابل بھروسہ اور قابل اعتماد معلومات کی فراہمی ضروری ہے اور اس ضمن میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی خدمات کو بروئے کار لاکر خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نوجوان ماؤں اور ان کے خاندانوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے تولیدی صحت کی سہولیات کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اس ضمن میں جامع اور کثیر الجہتی قومی حکمت عملی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد اشد ضروری ہے ۔
تقریب میں پاپولیشن کونسل نے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے شرکا کو بتایا کہ پاکستان میں مانع حمل طریقوں کی فراہمی کو پورا کرنےسے نوجوان ماؤں میں غیر ارادی حمل کے کیسز میں 72 فیصد، دوران زچگی اموات میں 76 فیصد اور اسقاط حمل میں 72 فیصد سالانہ تک کمی لائی جا سکتی ہے۔