حکومتی اتحاد کا پنجاب، کے پی الیکشن ملتوی کیس میں فریق بننے کا فیصلہ

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

اسلام آباد:  پنجاب اور  خیبرپختونخوا (کے پی) میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پاکستان  تحریک انصاف  (پی ٹی آئی) کی سپریم کورٹ میں درخواست کے کیس میں حکومتی اتحاد نے فریق بننے کا فیصلہ کرلیا۔

حکومتی اتحاد کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن،  پیپلزپارٹی اور  جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی)  نے اپنا موقف عدالت میں پیش کریں گی۔

پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5  رکنی لارجر  بینچ  آج دوبارہ  سماعت کر رہا ہے،  بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

آج سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ اس سماعت کو بہت لٹکانا نہیں چاہتے،کل کے حکم نامے کے مطابق الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیارکو دیکھنا ہے، سیاسی جماعتوں کے فریق بننے کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے، رول آف لاء اور جمہوریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، آج کل سیاسی پارہ بہت اوپر ہے،گزشتہ روز یہ درخواست کی تھی کہ سیاسی جماعتیں یقین دہانی کرائیں، آپس میں برداشت، تحمل اور امن وامان کی صورتحال ہونی چاہیے۔

27 مارچ کی سماعت کے تحریری حکم

27 مارچ کی سماعت کے تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت عام انتخابات وقت پر ہونا لازم ہیں، بروقت عام انتخابات کا ایمانداری، منصفانہ اور قانون کے مطابق انعقاد جمہوریت کےلیے ضروری ہے، عام انتخابات کےانعقاد میں خامی،کمی یا ناکامی مفاد عامہ اور ووٹنگ کا بنیادی حق متاثرکرتی ہے۔

سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے مطابق الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کی انتخابات کی تاریخ منسوخ کی، درخواست گزار کے مطابق الیکشن کمیشن صدرکی تاریخ منسوخ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، درخواست گزار کے مطابق الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرکے آرٹیکل 254 کے پیچھے پناہ لی۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا ہےکہ عدالتی نظائر میں آرٹیکل 254 کسی عمل کا مقررہ وقت گزرنے کے بعد اس کو غیر مؤثر ہونے سے تحفظ دیتا ہے، آرٹیکل254 مقررہ وقت پر ہونے والے عمل میں التوا کا تحفظ نہیں دیتا، درخواست گزار کے مطابق 8 اکتوبر تک انتخابات ملتوی کرنے کی کوئی آئینی پشت پناہی نہیں۔

عدالتی حکم کے مطابق سپریم کورٹ نے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیے، الیکشن کمیشن سے کہا گیا ہے کہ کہ وہ الیکشن کمیشن درخواست میں اٹھائے گئے قانونی سوالات پر جواب دے۔

مزید خبریں :