Time 03 اپریل ، 2023
بلاگ

گھر میں لگی آگ کون بجھائے گا؟

پاکستان کے حالات انتہائی پریشان کن ہو چکے، جو روز بروز خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں اور بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی کیوں کہ جنہیں حالات درست کرنا ہیں، وہ اقتدار کی جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہیں۔

 جن بحرانوں کا پاکستان کو سامنا ہے اُن کو دیکھتے ہوئے سب کو پاکستان کے لئے ایک ہونا چاہئے لیکن اس کے برعکس اسٹیک ہولڈرز میں تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ ملک کے حالات سے سب آگاہ ہیں، سب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حالات انتہائی تشویش ناک ہیں لیکن اس گراوٹ کو روکنے اور عوام اور پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے مل بیٹھنے کے لئے کوئی تیار نہیں۔

 سیاستدانوں نے بہت مایوس کیا اور اب تو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ میں جو ہو رہا ہے اُس نے ان حالات کی سنگینی کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ آج تو سپریم کورٹ کے اپنے ایک جج صاحب بھی ان حالات سے پریشان کھلی عدالت میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اللّٰہ تعالیٰ پاکستان اور عدالت عظمیٰ پر اپنا رحم فرمائے۔

انہی حالات کو دیکھتے ہوے محترم مفتی تقی عثمانی نے سوشل میڈیا پر اپنا ایک بیان دے کر تمام ذمہ داروں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا ہے کہ اگر کسی گھر کے لوگ آپس میں لڑ رہے ہوں اور گھر میں آگ لگ جائے تو کیا اس وقت یہ بحث کی جائے گی کہ آگ کس نے لگائی یا واحد راستہ یہ ہو گا کہ سب مل کر آگ بجھائیں؟ اُنہوں نے کہا کہ موجودہ بحران کا حل صرف یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے منافرت اور دشمنی کے بجائے سر جوڑ کر ملک کو بچائیں۔مفتی صاحب نے قرآن کریم کا حوالہ دیتے ہوے لکھا :

’’تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، اس لئے اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرواؤ اور اللّٰہ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے۔‘‘

تقی صاحب نے زور دیا کہ عوام اور بااثر حضرات کا فرض ہے کہ وہ اس قرآنی حکم پر عمل کر کے رہنماؤں کو ساتھ بٹھانے کی بھرپور کوشش کریں۔ اُنہوں نے یہ بھی لکھاکہ فوج اور عدلیہ کو یقیناً سیاست میں دخل نہیں دینا چاہئے لیکن ایسے سنگین حالات میں جماعتوں کو ساتھ بٹھا کر غیر جانب داری سے صرف اور صرف ملک کے مفاد اور قومی سلامتی کے لئے مسئلے کا حل نکالنا ان کا فرض بنتا ہے۔مفتی صاحب نے آخر میں دعا کی کہ اللّٰہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

افسوس کہ سیاسی جماعتیں اور اُن کے رہنما جس گھر کی آگ کو بجھانے کی مفتی صاحب بات کر رہے ہیں، اُس پر مزید تیل چھڑک رہے ہیں۔ سپریم کورٹ سے اب اگرکوئی مثبت اور حوصلہ افزا سرپرائز مل جائے تو اس کا پتا نہیں لیکن ابھی تک تو یہاں کے حالات بڑے خراب ہیں اور ڈر ہے کہ جس ڈگر پر عدالت عظمیٰ میں معاملات چل رہے ہیں اگر وہ نہ بدلے تو عدالتی بحران کے ساتھ ساتھ سیاسی تقسیم مزید بڑھے گی،پاکستان کے لئے مشکلات میں اور اضافہ ہو گا۔ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے آنے کے بعدفوج کی طرف سے ابھی تک اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بٹھانے کی کسی کوشش کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔

 فوج کے ادارے کے ساتھ جو کچھ سوشل میڈیا کے ذریعے کیا جا رہا ہے اُس سے ہو سکتا ہے کہ فوج بھی سیاستدانوں سے رابطہ کرنے سے کترائے۔ صدر پاکستان کا عہدہ ایسا ہے جو ایک ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے لیکن موجودہ صدر عارف علوی بھی اپنی سیاسی جماعت تحریک انصاف کی پالیسیوں سے مرعوب چند ایک فیصلوں کی وجہ سے کافی متنازعہ ہو چکے ہیں۔ویسے بھی صدر علوی نے ماضی میں دونوں سیاسی فریقوں کو بٹھانے کی کوشش کی لیکن اُنہیں کوئی کامیابی نہ ملی۔

 ان حالات میں میری تو تجویز یہ ہو گی کہ محترم مفتی تقی عثمانی سب کو ساتھ بٹھانے کی خود ایک کوشش کریں۔ مفتی صاحب سب کے لئے قابل احترام ہیں۔ وہ وزیراعظم سے ملیں، عمران خان سے بات کریں، دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ آرمی چیف اور چیف جسٹس سے رابطہ کریں۔ ممکن ہے اُن کی بات ہی سب سن لیں، تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بٹھا کر پاکستان کو کسی بڑے نقصان سے بچانے کی ایک کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔