04 اپریل ، 2023
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں الیکشن کے التوا سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہوگئی اور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے جو آج منگل کو کسی بھی وقت سنایا جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ میں گزشتہ روز سماعت کے موقع پر سکیورٹی میں اضافہ کیا گیا اور سپریم کورٹ میں انہی افراد کو داخلے کی اجازت تھی جن کے مقدمات زیرسماعت تھے۔
سماعت کے آغاز سے قبل اٹارنی جنرل پاکستان کی جانب سے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مقدمہ نہ سنے۔
اٹارنی جنرل کی 7 صفحات پر مشتمل متفرق درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن ازخودنوٹس کیس نہ سننے والےججزپر مشتمل عدالتی بینچ بنایا جائے۔
حکومتی اتحاد نے فل کورٹ نہ بنائے جانے کی صورت میں سپریم کورٹ کی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
یکم اپریل کو ہونے والے اجلاس کے بعد حکومتی اتحادی جماعتوں کے اعلامیے میں حکومتی اتحاد نے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔
گزشتہ روز سماعت شروع ہوئی توپاکستان پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آگئے اور استدعا کی کہ میں کچھ کہنا چاہتے ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کیس کا حصہ بن رہے ہیں؟ کیا آپ بائیکاٹ نہیں کر رہے تھے؟ وکیل پیپلز پارٹی فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ ہم نے بائیکاٹ نہیں کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ مشاورت کرکے ہمیں بتائیں، ہمیں تحریری طور پربتائیں، اگربائیکاٹ نہیں کیا تو بھی بتائیں، اخبارات میں آیا ہےکہ پیپلزپارٹی نے بھی بائیکاٹ کیا ہے۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو بینچ پر تحفظات ہیں، بائیکاٹ نہیں کیا۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آپ بائیکاٹ کرکے دلائل دینے آگئے، اجلاس میں کہا گیا ہےکہ بینچ پر اعتماد نہیں ہے۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اس پر لارجر بینچ بننا چاہیے۔
وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے: وکیل ن لیگ اکرم شیخ
وکیل ن لیگ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا گیا، ہم نے وکالت نامے واپس نہیں لیے،ہمیں بینچ پر تحفظات ہیں، وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ بینچ کے دائرہ اختیار پر بھی تحفظات ہیں۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کا اجلاس منعقد ہوا ہے، 48 گھنٹوں سےقومی پریس میں بائیکاٹ کا اعلان چل رہا ہے ، اگرآپ کو ہم پر اعتماد نہیں تو ہمیں بتائیں ، آپ کو ہم پر اعتماد ہی نہیں تو آپ دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ بائیکاٹ ہی کرنا ہےتو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ وکالت نامہ دینے والوں نے ہی اس بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں، سیاسی جماعتوں نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا تو تحریری طور پر بتائیں۔
یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے: اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس نکتے پر پہلے بات کرچکے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ آگے بڑھا سکتا ہے، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے اسی بات کی توقع ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلہ سناچکی تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کیسے تاریخ آگے بڑھاسکتا ہے؟ سپریم کورٹ کا حکم ایگزیکٹو سمیت سب اداروں پر لاگو ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ کا ہی تھا، 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس میں سے4 ججز نے درخواستیں مستردکیں، 4 ججز نے تفصیلی فیصلے جاری کر دیے ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواستوں کو مسترد نہیں کیا: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس یحیٰی آفریدی نے درخواستوں کو مستردکیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواستوں کو مسترد نہیں کیا، اس پر اٹارنی جنرل نےکہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے جسٹس یحیٰی آفریدی کے فیصلے سے اتفاق کیا تھا، 9رکنی لارجربینچ نے 2 دن کیس کی سماعت کی تھی۔
اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر روسٹرم پر آگئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ججز نے27 فروری کے آرڈر میں بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ مجھے بھجوایا، ہمیں کوئی فیصلہ بتائیں جس میں چیف جسٹس کو نیا بینچ بنانے سے روکا گیا ہو؟ اس پر اٹارنی جنرل نےکہا کہ پشاورکا کیس ہے جس میں چیف جسٹس کو مرضی کے بینچ سے روکا گیا۔ چیف جسٹس نےکہا کہ پشاورکیس کا حکم آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نےکہا کہ یکم مارچ کا آرڈر آف دی کورٹ اب تک جاری نہیں ہوا، چیف جسٹس نے کہا کہ کون سا قانون یا ضابطہ عدالت کو آرڈر آف دی کورٹ جاری کرنےکا پابند کرتا ہے؟ کیاآپ 4 ججز کے فیصلے کو ہی جوڈیشل آرڈر تسلیم کرتے ہیں؟ اگر 4 ججزکا فیصلہ ہی تسلیم کرلیں تب بھی بینچ تشکیل دینےکا اختیار کیاچیف جسٹس کے سوا کسی کو ہے؟
اٹارنی جنرل نےکہا کہ یکم مارچ کو کوئی عدالتی حکم موجود نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 5 رکنی بینچ کبھی بنا ہی نہیں تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور کے پی کے لیےگورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا، گورنر کے پی نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔
قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنےکا اختیار نہیں دیتا: چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنےکا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائےگئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لےکر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہوچکا۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامےکا ہے، عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا، الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا توباقی استدعا ختم ہوجائیں گی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، دو ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آچکی ہیں، دو ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کردی تھیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی کاروائی عوامی مفاد کے لیے ہوتی ہے، ججز کی رائے الگ ہوتی رہتی ہے، سپریم کورٹ میں ہمارے مختلف خیالات ہوتے ہیں لیکن مشاورت بھی ہوتی ہے، ہماری بینچ سے الگ بھی آپس میں بات چیت ہوتی ہے، اس سے متعلق جواد ایس خواجہ نے اپنی یادداشتیں بھی لکھی ہیں، اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر اپنی نشست سے کھڑے ہوکر بول پڑے اور کہا کہ آپ اسے مت کوٹ کریں، وہ جھوٹ ہے۔
'تمام ججز اتفاق کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کو بینچ بنانے کا اختیار ہے'
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارا خیال ہے اکثریتی ججز از خود نوٹس مسترد کرچکے ہیں۔ چیف جسٹس نےکہا کہ آپ پانچ رکنی بینچ کا حکم نظر انداز کر رہے ہیں جنہوں نے چیف جسٹس کوبینچ بنانےکا اختیار دیا تھا، اس بینچ میں چار ججز نے خود کو الگ کیا، بینچ دوبارہ تشکیل دیا اس لیے انہیں شامل نہیں کیا، دو ججز نے بھی الگ سے آرڈر جاری کیا، تمام ججز اتفاق کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کو بینچ بنانے کا اختیار ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ چیف جسٹس نے جو اختیار استعمال کیا وہ انتظامی نہیں عدالتی ہے، مقدمےکی سماعت میرٹ پرکی گئی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا تھا چیف جسٹس چاہیں تو مجھے بینچ میں دوبارہ شامل کرسکتے ہیں، اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ جب جج نے کہہ دیا چیف جسٹس کی مرضی ہے بینچ میں رکھے یا نہیں تو بات ختم، کسی کیس میں ایسا ہوا کہ ایک دن جج درخواست مسترد کرے اگلے دن اسی بینچ میں بیٹھ جائے؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججزکی آپس میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کے لیے بہت اہم ہے، ججز کے بہت سے آپسی معاملات ہوتے ہیں، عدالتی کاروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت نہیں، تفصیلی اختلافی نوٹ میں بینچ کے ازسرنو تشکیل کا نکتہ شامل نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹ کے مطابق بینچ کی ازسرنو تشکیل انتظامی اقدام تھا، نوٹ کے مطابق جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس مظاہر نقوی نے سماعت سے معذرت کی۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ نوٹ کے مطابق چارججز نے خود کو بینچ سے الگ کیا، 9 رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کہ کون رضاکارانہ الگ ہو رہا ہے،دو ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرنو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے بھی سماعت میں دونوں ججزکے رکن ہونےکا نکتہ نہیں اٹھایا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ چار آراء کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فٹ نوٹ میں بھی لکھا ہے کہ دوججزکی آراء ریکارڈ کا حصہ ہیں فیصلےکا نہیں، ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکم نامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نکتے پر قائل نہیں کرسکے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والا حکم واضح نہیں۔
سپریم کورٹ کے کسی بھی بینچ کا حکم سب پرلاگو ہوتا ہے:اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نےکہا کہ سپریم کورٹ کے کسی بھی بینچ کا حکم سب پرلاگو ہوتا ہے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ آپ موجودہ کیس کی بات کریں اس کیس میں ایسی کوئی درخواست نہیں ہے، دو ججزنے فیصلہ دیا، آپ اس کو جس طرح پڑھنا چاہیں پڑھیں۔
چیف جسٹس نےکہا کہ آپ جوکہہ رہے ہیں وہ مفروضوں پر مبنی ہے، بہت اہم معاملات پر ازخود نوٹس لیا جاتا ہے، بینچ کے تناسب والے معاملے پر آپ کا نکتہ سمجھ گئے، امید ہے آپ بھی ہمارا نکتہ سمجھ گئے ہوں گے، دو سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی نے درخواستیں دائرکی تھیں، دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آج فل کورٹ بنانے کی درخواست لےکر آیا ہوں، میڈیا نے رپورٹ کیا کہ آپ نے فل کورٹ مسترد کر دی، آپ کے حکم نامے میں ایسی بات نہیں تھی۔
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ مقدمہ ملتوی کرنا چاہتے ہیں؟ ایک طرف آپ فل کورٹ کا کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف التوا کا۔
چیف جسٹس نےکہا کہ آپ اپنی دلیل قیاس آرائی پر قائم کر رہے ہیں، یہ عدالت ازخود نوٹس پر بہت احتیاط کرتی ہے، اب تک اس عدالت نے از خود نوٹس پر بہت احتیاط کی بھی ہے، از خود نوٹس میں کیا پتا ہوتا ہے کہ دوسرا فریق آئےگا یا نہیں، اسپیکرز کی درخواست کے علاوہ دو ججز نے از خود نوٹس لینے کی درخواست کی، آپ چیزوں کو خود سے پالش کرکے پیش کر رہے ہیں، رولز کی بات ٹھیک ہے مگر لوگوں کے اہم معاملات چھوڑ نہیں سکتے، سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا استعمال کرتی ہے۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان نے استدعا کی کہ اس کیس کی سماعت مؤخر کردی جائے۔ اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ آپ اپنا ذہن بنالیں کہ عدالت سے چاہتے کیا ہیں؟ آپ ایک طرف فل کورٹ کی بات دوسری طرف کیس مؤخرکرنےکا کہہ رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نےکہا کہ میری دانست اور میڈیا رپورٹس کے مطابق فل کورٹ کی استدعا مسترد ہوچکی، پہلی سماعت اورپھر جمعےکو بھی فل کورٹ کی استدعا کی مگرمانی نہیں گئی، فل کورٹ مسترد کرنےکا معاملہ حکم نامے میں بھی نہیں۔
کہا تھا فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کہا تھا فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی، سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا تھا، 31 مارچ کے سرکلر میں لکھاہے 5 رکنی بینچ کے فیصلےکی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پرسرکلر آیا ہے، فیصلےمیں لکھا ہے مناسب ہوگا 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، عوام کا مفاد مقدمات پر فیصلے ہونے میں ہے نہ کہ سماعت مؤخر کرنے میں، فیصلے میں تیسری کیٹیگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہرمقدمے میں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنے ہوئے ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ مقدمے میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کی تیسری کیٹیگری میں آسکتا ہے، 184/3 کے رولز بننے تک سماعت مؤخرکی جائے۔
'سماعت کے بغیرکچھ ججز نے فیصلہ دیا کہ درخواستیں نہیں سنی جانی چاہئیں'
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پچھلے 3 دنوں سے سپریم کورٹ کے سینیئر ججز سے مشاورت کر رہا ہوں، یکم مارچ کا 2 پر 3 کے تناسب سے اکثریتی فیصلہ ہے، فیصلہ دیا ان ججز نے جنہوں نے کیس سنا تھا، سماعت کے بغیر کچھ ججز نے فیصلہ دے دیا کہ درخواستیں نہیں سنی جانی چاہئیں، جو ججز الگ ہوگئے ان کے فیصلے پرکیسے عمل درآمد ہوسکتا ہے؟
کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس فائز مقدمہ سنیں؟ چیف جسٹس
اٹارنی جنرل نےکہا کہ 4 ججز نے درخواستیں مسترد کیں، ان کا فیصلہ اکثریتی ہے،4 ججز کے فیصلے پر نظرثانی کرلی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن ججز نےکیس سنا ہی نہیں ان کا فیصلہ ملا کر اکثریتی فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے؟ کیس سنے بغیر دیا گیا فیصلہ بہت محدود ہوتا ہے، سماعت کے بعد دیےگئے فیصلےکا الگ وجود ہوتا ہے، نظرثانی تب ہو جب وہ فیصلہ آپریشنل ہو، اس سےمتفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جسٹس فائز عیسیٰ کےفیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خودکوبینچ سےالگ کرلیا، کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پرصرف دستخط کیے تھے، تمام 15 ججز مختلف آراء اپنانے پر ایک مقدمہ نہیں سن سکتے، آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعا نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا لارجربینچ کی ہوسکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نےکہا کہ لارجربینچ کی استدعا آگے جا کرکروں گا، ان صاحبان (سیکرٹری دفاع، سیکرٹری خزانہ) کو کچھ حساس معلومات دینی ہیں ، انہیں کچھ پریزنٹیشنز بھی دینی ہیں جو حساس نوعیت کی ہیں ، کیوں نہ سماعت ان کیمرا کر دی جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی صورت میں آپ ہمیں سیلڈ پیپرکاپی دیں ، کسی جج کوبینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا،27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سےکون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی، جسٹس فائز عیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا ہے، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہوسکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں، لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔
جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پرمشتمل بینچ بنایا جائے:اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پرمشتمل بینچ بنایا جائے، تین دو اور چارتین کا فیصلہ باقی 2 ججز کو کرنے دیا جائے، موجودہ حالات بہت مشکل ہیں۔
اٹارنی جنرل نےانتخابات کے لیے سکیورٹی معاملے پر ان چیمبر سماعت کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں سربمہر رپورٹس دے دیں ہم پڑھ لیں گے،ہم صرف فوج کی بات نہیں کر رہے، مسلح افواج میں ائیر فورس، نیوی بھی شامل ہیں، اگر ہماری فوج حساس جگہوں پر تعینات ہے تو ہمیں ان دو کے بارے میں بھی بتایا جائے، آرمڈ فورسز میں نیوی اور فضائیہ بھی شامل ہیں، اگرپاک آرمی کی نفری مصروف ہے تو دیگر سروسز سے اہلکار لیے جاسکتے ہیں، نیوی سمیت دیگر فورسز سکیورٹی کے لیے لی جاسکتی ہیں جو حالت جنگ میں نہ ہوں، ویسے بتادیں کہ الیکشن کے لیےکتنی سکیورٹی چاہیے؟ جو کچھ حساس چیزیں ہیں ان کو ان چیمبر سن لیں گے۔
سیکرٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ حمود الزمان عدالت میں پیش ہوئے تو ان سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پنجاب میں سکیورٹی صورتحال سنگین ہے؟ سیکرٹری دفاع نےکہا کہ پنجاب میں سکیورٹی سے متعلق ان چیمبر بریفنگ دیں گے، ہم نے کورٹ میں کچھ بولا تو دشمن معلومات لیک کرسکتا ہے، کچھ حساس معلومات ہیں جو چیمبر میں بتائیں گے۔
وکیل تحریک انصاف علی ظفر کا کہنا تھا کہ میری رائے میں ابھی سکیورٹی کا معاملہ چھوڑ دینا چاہیے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انتخابات کے لیے سکیورٹی کون دے گا؟ وکیل علی ظفر نےکہا کہ الیکشن کے روز دیگر فورسز سے سکیورٹی لی جاسکتی ہے۔
حکومت کو یہ اعتمادکیسے ہےکہ 8 اکتوبرکو حالات ٹھیک ہوجائیں گے؟چیف جسٹس
چیف جسٹس نےکہا کہ حکومت کو یہ اعتماد کیسے ہےکہ 8 اکتوبرکو حالات ٹھیک ہوجائیں گے؟ وکیل علی ظفر نےکہا کہ الیکشن کمیشن کہہ چکا سکیورٹی اور فنڈز ملیں تو الیکشن کے لیے تیار ہیں، ریٹائرڈ آرمی کے جوان بھی سکیورٹی کے لیے لیے جاسکتے۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری دفاع سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس ریٹائرڈ جوان بلانےکا کوئی طریقہ کار ہے؟ سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ ریٹائرڈ آرمی جوان ریزروفورس ہوتی ہے جنہیں مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے۔
الیکشن میں ڈیوٹی کے لیے جنگجو فوجی نہیں چاہئیں:چیف جسٹس
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن میں ڈیوٹی کے لیے جنگجو فوجی نہیں چاہئیں، ریٹائرڈ آرمی جوان بھی سکیورٹی دے سکتے ہیں، پیرا ملٹری فورسز بھی سکیورٹی دے سکتی ہیں جو وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں۔
سیکرٹری دفاع کا کہنا تھا کہ ریزرو فورس کی طلبی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، ریزرو فورس کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فوج کی بڑی تعداد بارڈرز پر بھی تعینات ہے، الیکشن کل نہیں ہونے، پورا شیڈول آئےگا، جن علاقوں میں سکیورٹی صورتحال حساس ہے ان کی نشاندہی کریں، الیکشن کمیشن نے 45 فیصد پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا ہے۔
عدالت نے سیکرٹری دفاع کو ہدایت کی کہ چندگھنٹوں بعد یا کل صبح تک رپورٹ دے دیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیرفورس سے مدد لی جاسکتی ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے 50 فیصد پولنگ اسٹیشنز محفوظ ہیں، فوج میں ہریونٹ یا شعبہ جنگ کے لیے نہیں ہوتا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کچھ وجوہات بتائی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکرٹری کی علالت کے باعث ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے رپورٹ جمع کرائی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل سیکرٹری صاحب آپ نے آئی ایم ایف پروگرام کا بتایا ہے، آپ کرنٹ اکاؤنٹ اور مالیاتی خسارہ کم کر رہے ہیں، الیکشن کے لیے 20 ارب روپے چاہئیں، بتائیں کونسا ایسا پراجیکٹ ہےجو 20 ارب سےکم کا ہے، سنتے رہتے ہیں فلاں سڑک اور پراجیکٹ کے لیے اتنے ارب رکھ دیےگئے، علی ظفر نے بتایا کہ 170 ارب آپ فنڈز کی مد میں ایم این ایز کو دے رہے ہیں،
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ 20 ارب روپے آپ دیں تو کھربوں میں سے کتنے فیصد ہوگا؟ اگر 20 ارب دینے پڑجائیں تو کیاکھربوں روپےکے بجٹ والا ملک نہیں دےسکتا؟ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں شاید کھربوں روپے پڑے ہوں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیکرٹری خزانہ کےمطابق سود کی ادائیگی اور پیٹرولیم مصنوعات کاخسارہ بڑھ گیا، آپ ہم سے شروع کریں، اخراجات کم کیوں کم نہیں کرتے، تھوڑا تھوڑا کرکے اداروں کے اخراجات کم کریں، یہ پیٹ کاٹنے والی بات ہے، 5 فیصد اخراجات کم کریں کام ہوجائےگا۔
آپ نےکیسے حکم پہلے دے دیا کہ الیکشن ہم نےکرانے ہیں:وکیل الیکشن کمیشن
وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نےکہا کہ آپ نے کیسے حکم پہلے دے دیا کہ الیکشن ہم نے کرانے ہیں، پہلے مجھ سن لیں کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کا ہے، کیا آپ نے فیصلہ کرنےکا پہلے ہی بتادیا ہے؟ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ہم نے کوئی فیصلہ پہلے سے نہیں کیا۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ میں سابق وزیر خزانہ ہوں، اس سال کا بجٹ خسارہ 4.9 فیصد ہے، 20 ارب الیکشن کے لیے دے دیے جائیں توبجٹ خسارے پر معمولی فرق آئےگا، اس سال کا ترقیاتی بجٹ 700 ارب روپے ہے، پہلے 8 ماہ میں 229 ارب روپے خرچ ہونے ہیں، ایم این ایز کو خصوصی فنڈز جاری کیے جائیں گے، آئینی ذمہ داری پوری کرنےکے لیے 20 ارب روپے نہ دینےکا بہانہ مذاق ہوگا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نےکہا کہ حکومت نے 8 ماہ میں 229 ارب خرچ کیے، اس کا مطلب کٹ لگائےگئے ہیں، توجہ کہیں اور ہے، ترقیاتی بجٹ کم نہ کریں، غیرترقیاتی بجٹ کو کم کردیا جائے، حکومت معاشی بہتری کے لیے اچھے اقدامات کر رہی ہے۔
عدالت نے سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ 170 ارب روپے جمع کرنےکے لیے نئے ٹیکس لگائےگئے۔ جسٹس منیب نےکہا کہ وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد ٹیکس جمع ہوا، پیٹرولیم مصنوعات پر حکومت کا خسارہ 157ارب روپےتھا،177 ارب ہوتا تو کیا ہوتا؟
ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نےکہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ خسارہ طے ہوچکا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اخراجات کم کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ ہے توعدالت ختم کردے گی، الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنےکا کہیں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نےکہا کہ اگر عدالت ذہن بنا چکی ہے تو ہمیں بتادیں، ہمارا موقف سن لیں پھر سیکرٹری سے بات کرلیں، عدالت سوشل میڈیا پر چلنے والی باتوں کا بھی نوٹس لے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سوموٹو نہیں لیں گے، آپ درخواست دیں، حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گے،عدالت فیصلہ کرے، 450 ارب روپے خرچ نہ ہونےکی وجہ اخراجات میں کمی ہے، حکومت نے اخراجات کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی تقاضہ پورا کرنےکے لیے آرٹیکل 254 ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مثال بن گئی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے۔
وکیل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق ایک طرف، درخواست گزار سیاسی جماعت اور دوسری جانب حکومت کے ہیں، جو تین رکنی بینچ بنایا گیا اس پر سوشل میڈیا پر بہت سی باتیں ہوئیں، تین رکنی بینچ کے ساتھ جانبداری کا عنصر شامل کرکے کچھ الفاظ جوڑے جارہے ہیں، پی ڈی ایم نے فل کورٹ کا مطالبہ کیا ہے جو پورا نہیں کیا گیا، سب بینچ کی جانبداری کی باتیں کر رہے ہیں، پتا پتا بوٹا بوٹا حال تو سارا جانے ہے،جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ توسارا جانے ہے، انصاف ناصرف ہونا چاہیے ، ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے، مجھےانصاف ہوتا نظر نہیں آرہا اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ بینچ کا وقار مجروح کر رہا ہوں، بینچ میں موجود ارکان نے پہلے ایک فیصلہ دیا جو تنازع کا شکار ہے، دیکھنا ہے کہ یہ چار تین کا فیصلہ تھا یا تین دوکا، آج عدالت میں بہت سیرحاصل بحث سننے کو ملی ہے، 9 ججز نے انتخابات کا معاملہ سنا، 4 نے خارج 3 نے الیکشن کمیشن کوحکم دیا، یہ بینچ ججز کے درمیان اختلاف ختم کرے، ججزکے درمیان صرف اندرونی نہیں بلکہ فیصلے پربھی اختلاف ہے، ایک سرکلر سپریم کورٹ کے فیصلے پرکیسے لاگو ہوسکتا ہے؟ کیس سننے کے لیے فل کورٹ نہ ہو بھی تو مزید ججز کو شامل کیا جائے، عوامی اعتماد کے لیے ضروری ہے تمام سائیڈز سے ججز کو بینچ میں شامل کیا جائے، ایک سیاسی جماعت کے بنیادی حقوق عوام کے بنیادی حقوق نہیں ہوسکتے۔
انتخابات کا معاملہ عدالت کو الیکشن کمیشن پر چھوڑ دینا چاہیے، وکیل عرفان قادر
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی برسوں میں عام اور صوبائی انتخابات ایک ہی دن ہوئے ہیں، پورے ملک میں انتخابات ایک ساتھ کرائے جانے چاہئیں، ملک کے مالی حالات میں بھی یہی بہترہے کہ انتخابات ایک ساتھ ہوں، انتخابات کرانے کا معاملہ عدالت کو الیکشن کمیشن پر چھوڑ دینا چاہیے، چار ججز کہہ چکے ہائی کورٹ انتخابات کے معاملے پر فیصلہ کرے، کے پی میں گورنر اور پنجاب میں صدر کو انتخابات کی تاریخ دینےکا حکم الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، چیف جسٹس سے درخواست ہے ججز کے اندرونی اختلافات ختم کرکے اتفاق رائے پیدا کیا جائے، جسٹس فائز عیسیٰ کا فیصلہ آپ کے خیال میں لازمی قابل عمل نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا کا ذکر آپ کر رہےہیں، پرسوں جسٹس فائز عیسیٰ سے ملاقات ہوئی، یہ آپ کوبتانےکی ضرورت نہیں، ملاقات میں فل کورٹ پر بات ہوئی، ملاقات میں یہ سمجھا کہ شاید جسٹس فائز عیسیٰ اپنے فیصلے کے باعث فل کورٹ کا حصہ نہ بن سکیں، جلد فل کورٹ اجلاس بلائیں گے، آپ کا نکتہ نوٹ کرلیا ہے لیکن بتا نہیں رہا ورنہ آپ اس پربہت آگے نکل جائیں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اس وقت جناب سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ کر رہےہیں. ایک چیز ہوتی ہے عالمگیر گواہی، پرویز الہٰی کی آڈیولیک سے آن ریکارڈ آچکا وہ اسمبلی توڑنا نہیں چاہتے تھے، گورنر یا وزیراعلیٰ پنجاب نے اسمبلی مرضی سے نہیں توڑی تو انتخابات کی بات ہونی ہی نہیں چاہیے، موجودہ بینچ میں بھی جسٹس اعجازالاحسن کو شامل نہ کرتے توشفافیت آتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی وجوہات بتائیں کیوں جسٹس اعجازالاحسن کوبینچ میں شامل نہیں ہوناچاہیے، مجھے نہیں لگتاکہ میں اپنے انتظامی اختیارات پرآپ کو جوابدہ ہوں۔
آپ مجھے نہیں قوم کو جوابدہ ضرور ہیں،عرفان قادرکا چیف جسٹس سے مکالمہ
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ آپ مجھے نہیں لیکن قوم کو جوابدہ ضرور ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل آرڈرز پر جوابدہ ہوں لیکن انتظامی آرڈرز پرنہیں، جسٹس اعجازالاحسن کےکیس سننےسے معذرت کا کیاکوئی دستخط شدہ آرڈر ہے؟ جسٹس منصور نے فیصلے میں بہت اچھی بات کہی، جسٹس منصور نے فیصلے میں کہا ایک جج بینچ میں شامل ہو تو نکالا نہیں جاسکتا۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ کئی بار ہوا ہےکہ جج کے دستخط سے پہلے فیصلے پبلک ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا کوئی دستاویزی ثبوت دکھائیں، بتایا گیا ہے ون مین شو والی بات میرےبارےمیں نہیں عمومی طورپرکہی گئی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے پوچھا کہ سیاسی جماعتوں نےکیا ہدایات لے لیں؟ فاروق نائیک نے جواب دیا کہ سیاسی جماعتوں کے اعلامیے میں عدالتی کاروائی سے بائیکاٹ کا ذکر نہیں۔
وکیل مسلم لیگ ن اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ وکیل وکالت کرتے ہوئے غلام نہیں بن جاتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ وکلا ذاتی حیثیت میں آتے تو اور بات ہوتی، یہاں آپ سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں، حکمران جماعتوں نے اعلان کیا ہے 3 رکنی بینچ پر اعتماد نہیں ہے۔
کیا مجھے اپنی شنوائی کیلئے اخبار میں آرٹیکل لکھنا ہوگا؟ وکیل ن لیگ
اکرم شیخ نےکہا کہ 6 دن سے یہاں بیٹھ کر انتظارکر رہا ہوں،کیا مجھے اپنی شنوائی کے لیے اخبار میں آرٹیکل لکھنا ہوگا؟ عدالت میں میری تذلیل ہو رہی ہے، مزید اپنی تذلیل نہیں کراؤں گا۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آپ اپنے دلائل تحریری دے دیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خوش آئند ہےکہ ہائی کورٹس میں انتخابات سے متعلق کوئی کیس زیرالتوا نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ حکومت اور پی ٹی آئی سیاسی ڈائیلاگ کریں، حل نکالیں، پاکستانی قوم کی خاطرسیاسی ڈائیلاگ کریں،کسی سیاسی نیتجے پرپہنچیں، سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہوتے تو آئینی مشینری موجود ہے، الزامات لگائے جا رہے ہیں کیونکہ ہرکوئی صرف سیاسی مفادات کوپوراکرنا چاہتا ہے، یہ اپنے ججز بھی خود چننا چاہتے ہیں؟ یہ کبھی نہیں ہواکہ اپنےمقدمات سننےکے لیے ججز خود منتخب کیے گئے ہوں، تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہے، پارلیمنٹ اور حکومت کا بہت احترام ہے، انتخابات ایک ساتھ ہونےکا آئیڈیا زبردست ہے، اس کیس میں دو اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں، وفاقی حکومت کی جانب سے یقین دہانی چاہیے ہوگی۔
بائیکاٹ کے باعث اتحادی جماعتوں کے وکلا کو نہیں سن سکتے:چیف جسٹس
چیف جسٹس نےکہا کہ ملک میں کوئی سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہورہا، سارا بوجھ وفاقی حکومت پر ہے، وفاقی حکومت انتخابات کرانےکی یقین دہانی کرائے تو کچھ سوچا جاسکتا ہے، آرٹیکل218 الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہےلیکن آئین سے تجاوز کی اجازت تو نہیں دیتا؟ کیا صدر مملکت وزیراعظم کی مشاورت کے بغیر تاریخ دے سکتے تھے؟ اٹارنی جنرل سےگلہ ہے 4/3، 3/2 کے معاملات میں پڑ کر انہوں نے اتنا اہم سوال نہیں اٹھایا، ہم سپریم کورٹ میں انصاف کے لیے بیٹھے ہیں، عدالت کے بائیکاٹ کے باعث اتحادی جماعتوں کے وکلا کو نہیں سن سکتے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نےکہا کہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار پرکسی نے بات نہیں کی، الیکشن کمیشن نے نہیں بتایا اسےالیکشن ملتوی کرنےکا اختیارکہاں سے ملا۔ چیف جسٹس نےکہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے سیکشن 58 کا حوالہ دیا تھا۔
وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ آئین سے بالاتر نہیں ہوسکتا، الیکشن کمیشن نے اپنے حکم میں آرٹیکل 218/3 کا حوالہ دیا، آرٹیکل 218/3 الیکشن کروانے کا پابند بناتا ہے، صدر مملکت کی دی گئی تاریخ ہی حتمی ہے، الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر کوئی کام نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن اپنے طورپر انتخابات کی تاریخ تبدیل نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن نےکہا وہ اپنی ذمہ داری پوری کرنےکو تیار ہے لیکن وسائل درکار ہیں۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونےکے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ فیصلہ سنانےکے وقت کا اعلان بعد میں کیا جائےگا۔
دوسری جانب 31 مارچ کی سماعت کے حکم نامے میں جسٹس جمال مندوخیل کی بینچ سے علیحدگی اور فل کورٹ بنانےکے حکومتی مطالبے کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے عرفان قادر کا نام بطور وکیل بھی شامل نہیں کیا، مسلم لیگ ن کےوکیل اکرم شیخ اورپیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا نام بھی شامل نہیں کیا گیا۔