بلاگ
Time 16 اپریل ، 2023

کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں؟

کیا سنائیں، کیا نہ سنائیں؟ کسے سنائیں؟ سبھی تو اختیار و اقتدار کی جنگ میں اوسان خطا کر بیٹھے ہیں۔ ہے کسی کو یہ فکر کہ ان کی محلاتی سازشوں اور اداراتی تگڑم کے ہاتھوں ملک کسی پاتال میں گرتا جارہا ہے۔ 

ایک ایسا مضحکہ خیز اور المیاتی سیریل ہے کہ ختم ہونے کو نہیں۔ بس نام و صورتیں اور تاریخیں بدل گئی ہیں، احوال و اعمال وہی ہیں۔ ریاست کی دم ویسے ہی ٹیڑھی ہے جیسے پہلے گورنر جنرل کے وقت تھی جو اسے سدھارنے سے پہلے سدھار گئے۔ کسی کو یاد ہے کہ ایک کورونا آیا تھا اور بعدازاں تاریخ کا بدترین سیلاب اور اسکی نہ ختم ہونے والی تباہ کاریاں۔ کسی کو یہ بھی خیال ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تقریباً 50 فیصد اضافے اور عام آدمی کی قوت خرید کے 40 فیصد سے زیادہ کم ہونے سے پاکستان کے عوام کی بہت بھاری اکثریت نانِ جویں تک کو ترس کر رہ گئی ہے۔ آٹے کی ایک مفت بوری سے آپ بھوک تو ختم کر نہیں سکتے، البتہ پوری قوم کو بھکاری ضرور بناسکتے ہیں۔

 اشرافیہ اور حکومتوں کی دریا دلی کتنی منافقانہ اور سفاکانہ ہے اور وہ بھی ٹیکس دینے والوں کی رقم سے۔ معاشی تباہی اور سیاسی انتشار کے بعد اب ملک اداراتی انہدام کی جانب چل نکلا ہے۔ لیکن کسی اصول، آئینی و قانونی شفافیت اوراداراتی تکون کی حد بندیوں کے احترام میں نہیں۔ صرف پاور کیلئے، خواہ وہ شخصی ہو یا گروہی یا اداراتی۔ اور اس کی کوئی حد نہیں۔ 

جب پاور اسٹرکچر کے بارے میں سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ پاکستان مختلف اداراتی جاگیروں (Fiefdoms) اور مافیاز کی کنفیڈریشن ہے جس میں ہر عنصر اپنے مفاد میں خود مختار ہی نہیں بلکہ دوسرے کی حدود میں تجاوزات پہ تلا بیٹھا ہے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے تھوڑے بہت اثر کے تحت جیسے کیسے لڑکھڑاتا ہوا جمہوری عمل چلتا رہا اور آئینی و عدالتی تجاوزات سے ٹھوکریں کھاتا رہا۔ لیکن گورنر جنرل کی وائسرائی نوآبادیاتی روایت میں عوام کے اقتدار اعلیٰ کی گنجائش بس اتنی ہی ہے کہ وہ کبھی مقتدر نہ ہوسکیں۔ 

لہٰذا براہ راست کرم خوردہ مارشل لائی نسخے کی جگہ ایک ہائبرڈ نظام کی داغ بیل ڈالی گئی جس کیلئے ایک پاپولر خوبرو قومی ہیرو اور سلیبرٹی (Celebrity)کے ہاتھ میں تسبیح پکڑا کر اقتدار کی مصنوعی مسند پر بٹھادیا گیا۔ جس کی باگ ڈور پولیٹکل انجینئرز کے ہاتھ رہی۔ پاکستان کے وجیہہ ترین ہیرو کی جمالیاتی و مردانہ وجاہت اور اس کی پرستش تو برقرار رہی لیکن اس کے پاس ایک مغلظاتی ابلاغ اور مخالفین کے ساتھ بدترین سلوک کے سوا کچھ نہ تھا اور گورننس کیلئے وقت میسر نہ آیا۔ پھر پولیٹکل انجینئرز کی بھی بس ہوگئی اور ایک صفحہ کا ورد باہمی تلخی کی نذر ہوگیا۔ جونہی ہائبرڈ نظام زمین بوس ہوا تو سارا پاور اسٹرکچر ایسا تتر بتر ہوا کہ ہائبرڈ نظام دوم کی تشکیل تک ہاتھوں کے طوطے اُڑگئے۔ 

جو خلا پیدا ہوا اور آئینی ڈھانچے کے کل پرزے ڈھیلے پڑے تو یونیٹی آف کمانڈ بیرکوں تک محدود ہوکر رہ گئی، جس کے باعث ہر کوئی خلاکو پر کرنے کی تگ و دو میں کپڑوں سے باہر ہوگیا۔ اوپر سے زخم خوردہ پرنس محلاتی سازش میں دھڑام سے کیا گرا کہ ہمدردی کی ایسی لہر اُٹھی جو ماند پڑنے کو نہیں۔ وہ مڈل کلاس جو پاکستان کے کلیدی بیانیے کی مبلغ تھی جو پیشہ سیاست سے نفرت اور پیشہ حرب سے محبت سے عبارت تھا، اُسے ایک نجات دہندہ مل گیا اور سیاست گئی بھاڑ میں۔

 اب ہر طرف مغلظات کی بھرمارہے اور سب اپنے اپنے مفاد میں آئین و جمہوریت کی قسمیں اُٹھا کر اس کی تدفین میں سبقت لینے کے لئےایک دوسرے کے کپڑے اُتارنے پہ تلے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں جو خلا پیدا ہوا اس میں مقتدرہ کے تین حصوں، پاک فوج، عدلیہ اور سول سروس نے اپنی اپنی راہ لی۔ جمہوری طور پر معزول ہیرو نے ایسی دل اندوز سینہ کوبی کی کہ ہر ادارہ، ہر شعبہ اور ہر کمیونٹی تقسیم ہوکررہ گئی۔ 

پاک فوج کی سیاست سے لاتعلقی کیا ہوئی کہ سیاسی مناقشے کے حل کیلئے اُتری بھی تو وہ عدلیہ جس کی آمریتوں سے شرمناک سمجھوتوں اور سیاستدانوں اور منتخب اداروں سے مخاصمتوں کی تاریخ ناقابل رشک رہی ، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اس بار یہ متحارب چاہتوں اور اناؤں کا شکار ہوکر بری طرح سے تقسیم ہوگئی۔ عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے بدقسمت مقدر میں ہمیں جو تحفے چیف جسٹسز افتخار چوہدری، ثاقب نثار اور گلزار احمد کی صورت ملے اور جس دیدہ دلیری سے مفاد عامہ کے نام پر دو منتخب حکومتوں کا جنازہ نکالا گیا اور آرٹیکل (3)184 کا بے دریغ استعمال کیا گیا، اس سے عدلیہ میں بھی ”ون مین رُول“ قائم ہوگیا۔ اوپر سے اٹھارویں ترمیم میں دئیے گئے ججوں کی تعیناتی کے متوازن پیمانوں کو افتخار چوہدری نے پارلیمنٹ کو انیسویں ترمیم لانے پہ مجبور کردیا اور عدلیہ مادر پدر آزاد ہوگئی۔ پھر کیا تھا پوسٹ پی سی او جوڈیشری اقربا پروری کی نذر ہوگئی۔ 

جو سنیارٹی کا اصول ججز کیس میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے طے کیا تھا وہ اُٹھا کر کوڑے میں پھینک دیا گیا۔ یوں چیف جسٹس اپنی طرز کا چیف آف اسٹاف بن کر براجمان ہوگیا۔ بھلا مانگے تانگے کی شہباز حکومت چیف جسٹس کی ججوں کے چناؤ میں پسندیدگی سے کیسے منہ موڑسکتی تھی اور اس کے وزیر قانون کو سنیارٹی کے اصول پر قلابازی کھانی پڑی تو اس گناہ کی سزا ملی بھی تو 8 رکنی بنچ نے پارلیمنٹ کے سپریم کورٹ کے ضوابط سے متعلق مسودہ قانون کا تولید سے قبل ہی اسقاط کر دیا۔ اب عدلیہ کی اکثریت چیف جسٹس کی قیادت میں ایک ایسی انتظامیہ سے برسرپیکار ہے جسے پارلیمنٹ کی خودمختاری میں پناہ لینی پڑی۔ 

سویلین اداروں میں جنگ کا سماں ہے۔ اوپر سے منقسم وکلا کی فوج ظفر موج ہے جو آئین کی مختلف شقوں کی ایسی گولہ باری میں مصروف ہے کہ حیرت زدہ عوام کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کون آئین کے کس طرف کھڑا ہے۔ اصل مسئلہ چیف جسٹس کی بلا شرکت اجارہ داری اور حکومت کی پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلیوں کے قبل از وقت انتخابات کے انعقاد سے راہ فرار ہے۔ بجائے اسکے کہ عدالت عظمیٰ سیاسی ٹکراؤ سے نکلنے کا کوئی مناسب اور قابل قبول رستہ نکالتی یہ اب سیاسی جنگ کا محور بن گئی ہے۔

 اب چیف جسٹس منقسم عدالت اور وزیراعظم دم کٹی پارلیمنٹ کے سر پہ ایسی جنگ لڑرہے ہیں جس میں کوئی فریق آلودہ ہوئے بنا نہیں رہ پائے گا۔ معاملہ تو صرف انتخابات کے وقت پر اتفاق رائے کا تھا جو فریقین کی سیاست کی نذر ہوگیا۔ سپریم کورٹ اگر انتظامیہ و پارلیمنٹ کی مخالفت کے باوجود 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے میں کامیاب بھی ہوجاتی ہے تو نتیجہ فساد کے سوا کیا نکلے گا؟ سویلین بالشتیوں کے ہاتھ سیاست و انصاف کی باگ ڈور کیا آئی کہ پورے کا پورا سویلین ڈھانچہ زمین بوس ہوا چاہتا ہے۔ شاید ڈراپ سین زیادہ دور نہیں بس پانی سر سے گزرنے کا انتظار ہے۔

ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا سناؤں!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔