19 اپریل ، 2023
...دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جہاں پر (کسی عدالتی معاملے میں) سیاسی پارٹیوں کے مفادات وابستہ ہوں تو وہاں پر عدالت کو بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہئے۔(اور عدالت کو ایسا رویہ اپنانا چاہئے کہ ) اس کی غیرجانبداری پر کوئی حرف نہ آئے بالخصوص ان کیسز میں جہاں پر عدالت اپنا ازخود نوٹس لینے کا اختیار استعمال کررہی ہو۔
جبکہ عدالت سے رجوع کرنے والے فریق کے طرز عمل اور مقاصد کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔اسی طرح آئین اور انسانی حقوق کےمحافظ ہونے کے ناطے عدالتی بنچ کو اس طرح آئین کی روح کے مطابق کام کرنا چاہئے کہ اس پر عوام کو مکمل اعتماد اور یقین ہو۔ عدالتی فیصلوں کو وقعت صرف اس وقت ملتی ہے جب عوام کو یہ یقین ہو کہ عدالت مکمل طور پر آزاد اور غیرجانبدار ہے جو سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان صرف ثالث کا کردار ادا کررہی ہے۔ہمارے سامنے جو تنازع ہے وہ بنیادی طور پر سیاسی ہے ۔
میرے معزز جج بھائی یحییٰ آفریدی نے 23 فروری 2023 کو اپنے نوٹ میں بجا طور پر لکھا ہے کہ عدالت کو تحمل سے کام لینا چاہئے اور (اس طرح کے معاملات میں ) عجلت کے انداز میں فیصلے نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ اس کے عدالت کی حیثیت پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عوام کے اعتماد اور یقین کو برقرار رکھنے کیلئے عدالت کی آزادی اور غیرجانبداری لازمی ہے ۔(اس غیرضروری عجلت کی وجہ سے ) اس عدالت کو مختصر وقت میں یکے بعد دیگرے تیسری دفعہ سیاسی تنازعات میں گھسیٹا گیا ۔
پٹیشن اور پھر آرٹیکل 184(3)کے اطلاق کی وجہ سے ایک ہنگامہ خیز بحران نے جنم لیا اور یہ عدالت بدترین سیاسی ہنگامہ خیزی کا مرکز بنی رہی ۔ پہلی مرتبہ تب اس عدالت کو ملوث کیا گیا جب ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کے نوٹس پر ووٹنگ نہیں کروائی جس کے نتیجے میں صدر نے اسمبلی کو تحلیل کرنے کا حکم دیا۔صدر نے یہ عمل اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے مشورے پر کیا۔
تب بارہ ججز کے مشورے پر چیف جسٹس نے آرٹیکل 184(3)کے تحت ازخود نوٹس لیا اور پانچ رکنی بنچ نے متفقہ طور پر ڈپٹی اسپیکر کے حکم کو کالعدم کرکے اسمبلی کی تحلیل کو ماورائے آئین قرار دیا ۔ قومی اسمبلی کو بحال کیا اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کا حکم دیا۔ (اس بنچ نے) اٹارنی جنرل کے نئے الیکشن کرانے کی درخواست کو رد کیا اور ڈپٹی اسپیکر (قاسم سوری) کو متعصب قرار دیا ۔ اسی طرح عدم اعتماد کی تحریک اکثریت نے منظور کرلی اور عمران خان آئین کے آرٹیکل 94(4) کے تحت وزیراعظم نہ رہے ۔
سیاسی بحران تب شروع ہوا جب عدم اعتماد کی تحریک کی ووٹنگ میں ناکامی کے بعد عمران خان نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کے بجائے خود بھی اسمبلی کی ممبر شپ سے استعفیٰ دیا اور پی ٹی آئی کے دیگر ممبران سے بھی استعفے دلوادئے (جن کو منظور کرنے کی بجائے ) اسپیکر نے التوا میں رکھا۔ان کی اس سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان کے سیاسی اور جمہوری عمل پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔ اسی طرح اس عدالت سےسیاسی فریقین کی طرف سے پیدا کردہ ایک اور سیاسی بحران کو حل کرنے کیلئے اسے ثالث بنا کر رجوع کرلیا گیا جبکہ صدر نے آئین کے آرٹیکل63(A)کی تشریح کیلئے عدالت سے رائے طلب کی ۔
اسی عدالت کے تین رکنی بنچ نے دو ایک کی اکثریت سے اپنے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 63(A) کی تشریح کرتے ہوئے یہ وضاحت کی کہ پارلیمنٹ کے اندر کسی بھی پارلیمانی پارٹی کے رکن بشمول (ڈیمڈ ممبر) کے پارٹی ہدایات کے خلاف ڈالے گئے ووٹ کو شمار نہ کیا جائے ۔چنانچہ پہلے سے اشتعال انگیز سیاسی ماحول میں اس فیصلے کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کی گئی جو تاحال عدالت میں زیرالتوا ہے ۔آئین کے آرٹیکل 63(A) کی تشریح کے اثرات سیاسی فریقین کیلئے دوررس نتائج کے حامل تھے ۔ اس کے بعد صوبہ پنجاب میں سب سے بڑی جماعت بن جانے والی تحریک انصاف نے بالترتیب پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ پنجاب اسمبلی14جنوری2023 جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی 18جنوری 2023 کو تحلیل ہوئی۔
پنجاب کے گورنر کی طرف سے اسمبلی کی تحلیل کے مشورے پر دستخط نہ کرنے کی وجہ سے اسمبلی مقررہ مدت کے بعد خود بخود تحلیل ہوئی جبکہ خیبر پختونخوا کے گورنر نے وزیراعلیٰ کے مشورے پر اپنے حکم سے تحلیل کردی ۔ ابھی نئے انتخابات کا اعلان نہیں ہوا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ سے نئے انتخابات کیلئے رجوع کیا۔ کچھ اور لوگوں نے بھی درخواستیں دائر کی تھیں کیونکہ وہ محسوس کررہے تھے کہ مجاز حکام عدم فعالیت دکھا کر انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی تھی کہ وہ متعلقہ حکام کو پابند کریں کہ وہ آئین کے آرٹیکل 229کے تحت مقررہ وقت میں انتخابات کرائیں ۔
اسی طرح پشاور ہائی کورٹ میں بھی فریقین کی جانب سے پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کیلئے درخواستیں دائر ہوئی تھیں۔لاہور ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا کہ گورنر صوبے کے آئینی سربراہ کی حیثیت سے اس بات کو یقینی بنائے کہ آئین میں دی گئی مدت کے مطابق نوے دن کے اندر نئے انتخابات منعقد ہوں ۔ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کے اس فیصلے کے خلاف ڈویژن بنچ کے سامنے درخواست زیرسماعت ہے اور اس نے کوئی حکم امتناعی جاری نہیں کیا ۔ لہٰذا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار ہے اور متعلقہ حکام اس فیصلے پر عمل درآمد کے پابند ہیں ۔
اس لئے لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کے تحت درخواستیں بھی دائر کرائی گئی ہیں ۔اس عدالت(سپریم کورٹ) کو لاہور ہائی کورٹ کی اہلیت اور قوت نافذہ پر کوئی شک نہیں اور نہ شک کرنے کی کوئی وجہ ہے ۔ (ہم اگر سپریم کورٹ کی سطح پر سماعت کریں گے تو) صوبائی آئینی عدالت کی اہلیت اور آزادی بلاجواز مجروح ہوگی ۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالنے کے سنگین نتائج ہوں گے ۔ پشاور ہائی کورٹ نے بھی درخواستوں کو سنجیدگی سے لیا ہے یوں (ہم سماعت کا بیڑہ اٹھاکر )ہائی کورٹس کی اہلیت کے بارے میں مفروضہ قائم کریں جو بلاجواز ہے ۔ (جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔