سرکاری تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق نشتر اسپتال کی چھت پر چار لاشیں تھیں، 200 یا 500 نہیں، جیسا کہ سوشل میڈیا پر کہاجا رہا تھا۔
19 اپریل ، 2023
گزشتہ برس کےاختتام پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے مشیرطارق زمان گجر نے ملتان میں نشتر اسپتال کا دورہ کیا تھا جہاں پر اسپتال کے مردہ خانہ کی چھت سے بوسیدہ لاشیں ملی تھیں۔
اس واقعہ کے فوراً بعدسوشل میڈیا پر یہ دعوے گردش کرنے لگے کہ ان بوسیدہ لاشوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
ایسے تمام دعوےبالکل غلط ہیں۔
دعویٰ
14 اکتوبر 2022 ءکو ایک ٹوئٹر صارف نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ” پنجاب کے نشتر اسپتال سے 500 لاوارث لاشیں برآمد ہوئیں۔ بہت سی لاشوں کے سینےچاک کر کے ان کے جسمانی اعضاء نکالے گئے ہیں۔“
ٹوئٹر صارف نے یہ بھی الزام لگایا کہ ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ اس ٹوئٹ کو 460 مرتبہ ری ٹوئٹ کیا جا چکا ہے۔
گزشتہ برس ایک تصدیق شدہ ٹوئٹر اکاؤنٹ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ”اسپتال کے مردہ خانے کی چھت پر تین درجن مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں، جس نے پوری قوم کوجھنجھوڑ کر رکھ دیا۔پنجاب حکومت نے ہمیشہ کی طرح اس معاملے کی تحقیقات کے لیے بھی کچھ نہیں کیا۔“
اسی طرح کےبہت سارے دعوے ٹوئٹر اور فیس بک پرموجود دیگر اکاؤنٹس کے ذریعے بھی شیئر کیے گئے۔
*اوپر ٹوئٹس کے مکمل لنکس اس لیے نہیں دیئے گئے کیونکہ ان میں لاشوں کی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں۔
حقیقت
رواں ہفتہ جیو فیکٹ چیک گزشتہ سال اکتوبر میں ملتان کے نشتر اسپتال میں پیش آنے والے واقعہ کے بعد پنجاب حکومت کی تیار کردہ تحقیقاتی رپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
رپورٹ کے مطابق چھت پر چار لاشیں تھیں، 200 یا 500 نہیں،جیسا کہ سوشل میڈیاپر دعویٰ کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014 ءمیں محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے جاری کردہ سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز کے مطابق پولیس کو نامعلوم لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے سرکاری اسپتال لایا جائے،جس کے بعد لاشوں کو تدریسی مقاصد کے لیے اسپتال کے شعبہ اناٹومی کے حوالے کیا جائے۔
نشتر اسپتال کے شعبہ اناٹومی کی چیئرپرسن مریم اشرف نے تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا کہ لاشوں کو چھت پر خصوصی طور پر بنائے گئے تین کمروں میں ڈی کمپوز کرنے کے لیے رکھا گیا تھا تاکہ انہیں بعد میں میڈیکل کے طلبہ کے معائنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
پچھلے برس اکتوبر کے پہلے ہفتے میں نشتر اسپتال کو چار لاوارث لاشیں موصول ہوئیں جن میں سے تین مردوں کی، جن کی عمریں 30 سے 40سال کے درمیان تھیں، اور ایک خاتون جس کی عمر 60 سال تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چاروں لاشیں بدبودار، بوسیدہ، اور کیڑوں سے بھری ہوئی تھیں، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس حالت میں نہیں تھیں کہ انہیں بعد میں تدریسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
”سکیورٹی گارڈز نے لاشوں کو اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کی چھت پر تعمیر شدہ کمروں میں رکھنے کی بجائے کھلے عام چھت پر رکھ دیا۔“
سات صفحات پر مشتمل رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سکیورٹی گارڈز نے مقررکردہ ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔
اس کے بعد رپورٹ میں چھ افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، جن میں اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرپرسن بھی شامل ہیں جنہوں نے لاشوں کو تدفین کے لیے واپس کرنے کے لیے متعلقہ تھانوں سے رابطہ نہیں کیا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ مستقبل میں لاشیں صرف ضرورت کی بنیاد پر میڈیکل کالجوں کے حوالے کی جائیں گی۔
اس واقعے کی انکوائری رپورٹ، جو چھ ماہ گزر جانے کے بعد بھی منظر عام پر نہیں آئی، میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ نشتر ہسپتال کی چھت سے 500 نہیں بلکہ چار لاشیں ملی تھیں۔
اضافی رپورٹنگ شہادت حسین اور نادیہ خالد کی جانب سے
ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔
اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔