01 مئی ، 2023
ایک اچھی فلم وہ ہوتی ہے جس کی کہانی لوگوں کے ذہن سے محو نہ ہوسکے بلکہ کئی برس بعد بھی سوالات کے جواب ڈھونڈنے پر مجبور کردے۔
اور ایسی فلموں کی کمی نہیں جن کی کہانی اتنی پیچیدہ ہوتی ہے جو لوگ ایک بار دیکھ کر سمجھ نہیں پاتے اور بار بار دیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ فلمیں مسحور بھی کر دیتی ہیں اور یہی ان کا کمال ہے، یعنی ذہنوں کو الجھانے کے ساتھ ساتھ ناظرین کو اسکرین سے نظریں ہٹانے نہیں دیتیں۔
ان فلموں کو جتنی بار بھی دیکھا جائے وہ زیادہ بہتر لگتی ہیں۔
یہ وہ فلم ہے جس کی کہانی اب بھی بیشتر ناظرین کے لیے معمہ بنی ہوئی ہے اور اب بھی ہر ماہ متعدد افراد کہانی کی وضاحت کے لیے گوگل سرچ انجن کا رخ کرتے ہیں۔
اس فلم میں لیونارڈو ڈی کیپریو نے ڈوم کوب کا مرکزی کردار ادا کیا تھا جو ایسا باکمال چور ہوتا ہے جو لوگوں کے ذہنوں میں خوابوں کے ذریعے داخل ہوکر خیالات چراتا ہے۔
ٹام ہارڈی، ایلن پیج اور جوزف گورڈن نے ڈوم کوب کی ٹیم میں شامل افراد کے کردار ادا کیے تھے اور فلم کی کہانی ایک شخص کے ذہن میں ایک نئے خیال کے بیج بونے کے گرد گھومتی ہے۔
اس مقصد کے لیے وہ خوابوں کی دنیا کے متعدد لیولز میں سفر کرتے ہیں اور اس دوران وہاں پھنس جانے کے خطرے کا سامنا بھی کرتے ہیں۔
ڈائریکٹر کرسٹوفر نولان کی یہ فلم بہت زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی مگر اس کی کہانی بھی ذہنوں کو الجھا دیتی ہے۔
ایک ناول کی کہانی پر مبنی اس فلم میں 1890 کے عہد کے 2 جادوگروں کی مسابقت کا احوال بیان کیا گیا ہے۔
فلم میں دکھایا گیا کہ کس طرح وہ اپنے حریف کو پیچھے چھوڑنے کے لیے اپنی ٹِرک کو پرفیکٹ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیے کسی حد کا خیال نہیں رکھتے۔
اس فلم کی کہانی تجسس سے بھرپور ہے اور کچھ حد تک ہارر بھی محسوس ہوتی ہے، جس کو دیکھتے ہوئے کئی مناظر میں لوگ اچھل پڑتے ہیں۔
لیونارڈو ڈی کیپریو نے اس فلم میں ایڈورڈ Daniels کا مرکزی کردار ادا کیا تھا جن کے ساتھ مارک ریفلو، بین کنگسلے اور دیگر اہم کرداروں میں جلوہ گر ہوئے۔
جو کہانی آپ فلم میں دیکھیں گے اس پر یقین نہ کریں کیونکہ آخر میں جو شاک آپ کا منتظر ہوگا وہ ذہن کو گھمانے کے لیے کافی ہوگا۔
درحقیقت اس فلم کا اختتام ایسے انداز سے ہوتا ہے جو اب بھی متعدد افراد کے لیے الجھن کا باعث بنا ہوا ہے۔
یہ ایسی فلم ہے جس کا اختتام ایسے زوردار جھٹکے سے ہوتا ہے جو دیکھنے والا طویل وقت تک بھول نہیں پاتا۔
اس فلم میں بروس ولز نے مرکزی کردار ادا کیا تھا جبکہ Haley Joel Osment نے بچے کے کردار کو یادگار بنادیا تھا۔
یہ فلم ایک ماہر نفسیات مالکم کرو کے گرد گھومتی ہے جو 9 سالہ مریض کول سیئر کا علاج کر رہا ہوتا ہے۔
علاج کے دوران مالکم کرو کو بچے کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملتا ہے اور انکشاف ہوتا ہے کہ وہ اردگرد گھومنے والے بھوتوں کو اس طرح دیکھ سکتا ہے جیسے وہ زندہ ہوں یا یوں کہہ لیں کہ انہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ مرچکے ہیں۔
فلم کے اختتام پر ناظرین کے لیے بہت بڑا سرپرائز چھپا ہوا ہے جو عرصے تک بھولنا ممکن نہیں۔
ڈائریکٹر ڈیوڈ فنچر کو ایسی فلموں کے لیے جانا جاتا ہے جن کی کہانی ذہنوں کو گھما دیتی ہے اور 1999 کی فلم فائٹ کلب بھی ان میں شامل ہے۔
براڈ پٹ اور ایڈورڈ نورٹن نے اس میں مرکزی کردار ادا کیے اور یہ فلم اپنی انوکھی کہانی کے باعث جانی جاتی ہے۔
اس کی کہانی میں ایسے پرتجسس ٹوئسٹ چھپے ہیں جو ناظرین کو بار بار یہ فلم دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں مگر پھر بھی کہانی کو پوری طرح سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔
2022 میں بھی لاتعداد فلمیں ریلیز ہوئیں مگر ایک فلم ایسی ہے جسے آپ کو ضرور دیکھنا چاہیے۔
یہ فلم ہے ایوری تھنگ ایوری ویئر آل ایٹ ونس، جس نے بہترین فلم کا آسکر ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔
یہ ملٹی ورس کانسیپٹ کے گرد گھومنے والی فیملی ڈرامہ ایکشن فلم ہے جس میں ذہن گھما دینے والے خیالات کو دکھایا گیا ہے۔
یہ فلم بنیادی طور پر ایک چینی خاتون Evelyn Quan Wang (مچل یوہ) کے گرد گھومتی ہے جو خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث دباؤ کا شکار ہوتی ہے۔
زندگی کے ان مسائل کے ساتھ ساتھ خاتون کی ملاقات ایک بیوروکریٹ سے ہوتی ہے جو اس کی زندگی کو بدل دیتی ہے۔
جس کے بعد وہ ملٹی ورس یا متوازی کائنات میں اپنے مختلف ورژن سے جڑنے کے لیے ایک زبردست ایڈونچر پر نکلتی ہے تاکہ دنیا کو بچا سکے۔
معروف ڈائریکٹر اسٹینلے کیوبرک کی اس فلم کو ہر دور کی بہترین فلموں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔
یہ فلم خلائی کھوج کے گرد گھومتی ہے جس میں ایک ایسا سپر کمپیوٹر دکھایا گیا تھا جو خلائی جہاز کو چلانے اور دیگر کام کرتا ہے۔
سائنسدان اب تک حقیقت میں ایسا باشعور سپر کمپیوٹر تیار نہیں کر سکے۔
اب بھی اس کی کہانی دیکھنے والوں کو چونکا دیتی ہے اور انہیں سمجھ نہیں آتا کہ اس میں کیا دکھایا گیا ہے۔
ڈائریکٹر کرسٹوفر نولان کی اس فلم کے کردار وقت میں ریوائنڈ اور فاسٹ فارورڈ ہوتے ہوئے اپنے مشن مکمل کررہے ہوتے ہیں۔
درحقیقت پورا پلاٹ ہی ٹائم انورژن (وقت کا بہاؤ الٹا چلا دینا) کے گرد گھومتا ہے، یعنی فلم کا پہلا نصف حصہ دوسرے حصے میں ریورس ہوکر دکھایا گیا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کے ذہن الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے مگر پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ تو درحقیقت دنیا کے مقبول ترین ٹی وی شو کا حصہ ہے جس کے لیے اس کی منظوری حاصل نہیں کی گئی۔
اس سائنس فکشن کامیڈی فلم کا دورانیہ تو محض 103 منٹ کا ہے مگر اس میں متعدد موضوعات جیسے میڈیا اور ٹی وی سے ہمارے تعلق، بڑی کمپنیوں کی جانب سے ہماری زندگیوں کو کنٹرول کرنے وغیرہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔
جم کیری نے ٹرو مین کا کردار ادا کیا اور یہ فلم 1990 کی دہائی میں تو منفرد تھی مگر اب بھی موجودہ عہد سے متعلق محسوس ہوتی ہے کیونکہ سوشل میڈیا نے نجی اور عوامی زندگی کو ایک کردیا ہے۔
کرسٹوفر نولان کی یہ فلم 2000 میں ریلیز ہوئی تھی جس کی کہانی کو سمجھنے کے لیے اب بھی ہر ماہ ہزاروں افراد گوگل سرچ کا رخ کرتے ہیں۔
یہ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جس کی بیوی کو ریپ کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے اور وہ اس کا انتقام لینا چاہتا ہے۔
مگر مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں چند منٹ سے زیادہ یادیں برقرار نہیں رہتیں، جس کے باعث اس کا مشن پیچیدگی کا شکار ہو جاتا ہے۔
فلم کا اختتام جس طرح ہوا ہے وہ ذہن کو الجھا دیتا ہے اور لوگوں کو اسے سمجھنے کے لیے گوگل کی مدد لینا پڑتی ہے۔
اس فلم میں منفرد سائنس فکشن تصور پیش کیا گیا مگر اس کے ساتھ ساتھ کہانی میں تجسس اور عام ناظرین کی دلچسپی کا بھی پورا خیال رکھا گیا۔
اس کی کہانی ٹائم لوپ کے گرد گھومتی ہے۔
ٹائم لوپ ایک ایسا تصور ہے جس کے مطابق کوئی فرد اس میں پھنس جائے تو اسے مخصوص وقت (جیسے چند منٹ، چند گھنٹے یا ایک دن) یا تجربے سے بار بار گزرنا پڑتا ہے۔
اس فلم کی کہانی کولٹر اسٹیونز (Jake Gyllenhaal) کے گرد گھومتی ہے جو ایک امریکی فوج کا ہیلی کاپٹر پائلٹ ہوتا ہے، جس کا ہیلی کاپٹر افغانستان میں گرجاتا ہے۔
جب وہ ہوش میں آتا ہے تو ایک پرہجوم ٹرین میں سفر کر رہا ہوتا ہے اور شیشے میں اس کا عکس مختلف چہرہ ظاہر کرتا ہے اور نام بھی Sean Fentress ہوتا ہے۔
اس ٹرین میں دھماکا ہوتا ہے اور وہ خود کو نیم تاریک کاک پٹ میں دریافت کرتا ہے اور اسے بتایا جاتا ہے کہ اس کا مشن ٹرین میں دھماکا کرنے والے فرد کو تلاش کرنا ہے۔
آسان الفاظ میں مرکزی کردار ایک دہشت گردی کے واقعے میں ملوث فرد کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کے لیے بار بار اس تکلیف دہ سفر سے گزرتا ہے اور دھماکے سے مرتا ہے۔
یہ ایک ہارر فلم ہے جس میں نکول کڈ مین نے گریس نامی خاتون کا مرکزی کردار ادا کیا۔
فلم میں دکھایا گیا کہ یہ خاتون دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر ایک محل نما گھر میں اپنے 2 بچوں کے ساتھ مقیم ہوتی ہے اور جنگ سے شوہر کی واپسی کی منتظر ہوتی ہے۔
بچوں کو ایک ایسی بیماری ہوتی ہے جس کے باعث انہیں دھوپ کی روشنی سے دور رکھا جاتا ہے جبکہ گھریلو کاموں کے لیے گریس 3 ملازمین کو رکھ لیتی ہے۔
جب ملازمین کام کرنے لگتے ہیں تو پھر عجیب واقعات پیش آنے لگتے ہیں۔
آپ کو آخر تک اندازہ نہیں ہوتا کہ درحقیقت یہ ماجرا کیا ہے اور ہوسکتا ہے بہت بڑا شاک اختتام پر آپ کا منتظر ہو۔
یہ فلم ایک ایسی خاتون کی کہانی ہے جو اپنے خاندان کے ساتھ ایک ایسے گھر میں لوٹتی ہے جہاں اس کا بچپن گزرا ہوتا ہے اور وہاں اسے بچپن میں ایک دہلا دینے والا تجربہ ہوچکا ہوتا ہے۔
وہاں پہنچ کر اسے ڈر ہوتا ہے کہ کچھ برا نہ ہوجائے اور یہ ڈر حقیقت کا روپ اختیار کرلیتا ہے، جب چند نقاب پوش اجنبی گھر میں گھس آتے ہیں اور جب وہ نقاب اتارتے ہیں تو یہ خاندان دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے کہ حملہ آور بالکل ان کی طرح ہیں۔
فلم میں ایسے انکشافات بھی ہوتے ہیں جو دیکھنے والوں کو دنگ کر دیتے ہیں اور دیکھنے والا یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اسے فلم کی کہانی کے بارے میں کچھ سمجھ بھی آیا یا نہیں۔
ڈائریکٹر ڈیوڈ فنچر کی یہ فلم ہر لمحہ آپ کے تجسس میں اضافہ کرے گی اور ذہن کو گھما دے گی۔
مورگن فری مین اور براڈ پٹ نے ایسے پولیس اہلکاروں کے کردار ادا کیے ہیں جو ایک سیریل کِلر کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔
تحقیقات بتدریج آگے بڑھتی ہے اور وہ قاتل کے قریب پہنچ جاتے ہیں مگر اختتام پر ایسا غیر متوقع واقعہ ہوتا ہے جو ان کے پورے کیس کو گھما کر رکھ دیتا ہے۔
اس فلم کو دنیا کی بہترین ٹوئسٹ اینڈنگ فلموں میں سے ایک مانا جاتا ہے اور تھرلر فلموں کے شوقین افراد کو اسے ضرور دیکھنا چاہیے۔
جب فلم اختتام پر پہنچتی ہے تو یہ عام کہانی ایسا موڑ لیتی ہے کہ ذہن گھوم جاتا ہے اور اس وقت پتا چلتا ہے کہ ہم نے جو عام سی کہانی دیکھی، وہ کتنی حیران کن ہے۔
فلم کے حوالے سے ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ تمام مرکزی کرداروں کو ڈائریکٹر نے یقین دلایا تھا کہ وہی کائزر سوزی (فلم کا اہم ترین کردار) کا کردار ادا کررہے ہیں، صرف ایک اداکار کو حقیقت معلوم تھی۔