اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری قانون کے مطابق قرار دے دی

عدالت نے رجسٹرار ہائیکورٹ کو ایف آئی آر درج کرانے کا حکم دیا اور سکریٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیے— فوٹو:فائل
عدالت نے رجسٹرار ہائیکورٹ کو ایف آئی آر درج کرانے کا حکم دیا اور سکریٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیے— فوٹو:فائل

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم  و پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی احاطہ عدالت سے گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دے دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی گرفتاری کے دوران رینجرز کی جانب سے عدالتی برانچ کے شیشے توڑنے اور وکلا پر تشدد کرنے کے معاملے پر سماعت کی۔ 

عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ عمران خان وہیل چیئر پر تھے، رینجرز والے انہیں بائیومیٹرک سے قبل گرفتار کرنا چاہتے تھے، مجھ پر اور علی بخاری کے اوپر اسپرے کیا گیا، عمران خان کے سر پر راڈ ماری اور زخمی ٹانگ پر بھی مارا پیٹا گیا۔

علی بخاری ایڈووکیٹ نے بھی گرفتاری اور وکلا پر تشدد کی تفصیلات بیان کیں۔

عمران خان کے ایک اور وکیل خواجہ حارث نے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر رہا کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کا معاملہ ہے،  نیب سے پوچھ لیں کہ انکوائری انویسٹی گیشن میں کب تبدیل ہوئی؟ یہ خبر 30 اپریل کو اخبار میں چھپی اور وہ خبر بھی انہوں نے انصار عباسی کو دی، اگر یہ انکوائری انویسٹی گیشن میں تبدیل ہوئی تو اس کی کاپی دینا لازم ہے۔

انہوں نے دلائل میں کہا کہ انکوائری رپورٹ کی کاپی قانون کے مطابق نہیں دی گئی، میں نے اس بات پر نیب کو لیٹر لکھا جو ساتھ لگایا ہے، نیب کے اپنے ریکارڈ سے بدنیتی ظاہر ہوتی ہے، چیئرمین نیب صرف انویسٹی گیشن کے دوران وارنٹ جاری کر سکتا ہے، نیب آرڈی نینس میں ترمیم ہوئی، پہلے انکوائری میں بھی وارنٹ جاری ہو سکتے تھے۔ 

چیف جسٹس نے کہا اس کا مطلب ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم بہتر ہے؟

خواجہ حارث نے اس پر ہاں یا ناں میں جواب نہیں دیا اور کہا خدشہ تھا کہ ایسا کچھ ہو گا اس لیے اسی کیس میں بائیومیٹرک کرا رہا تھا، نیب کے القادر کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کرنی تھی، یہ گرفتاری انصاف تک رسائی کے بنیادی حقوق کے خلاف اور غیر قانونی ہے، سلمان صفدر اس عدالت کو ہر سماعت پر کہتے ہیں کہ عمران خان کو گرفتار یا قتل کیے جانے کا خدشہ ہے۔ 

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ عدالتی کمپاؤنڈ پر اس طرح سے حملہ کیا جائے؟ 

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سب ایک نظام کے تابع ہیں، کورٹ کے اندر ایک کام ہوا جو بظاہر غلط ہوا ہے۔ 

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ہم نے وزارت داخلہ کو کہا یکم مئی کا وارنٹ ہے جس کی تعمیل کرائی جائے، اگر کوئی شخص گرفتاری میں مزاحمت کرے تو گرفتاری کے لیے تمام اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ گرفتاری کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے، بائیومیٹرک برانچ کے شیشے توڑے گئے اور وکلا کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، وارنٹ کی تعمیل کا نارمل طریقہ کیا ہوتا ہے؟ کیا نیب ہر کیس میں وارنٹ کی تعمیل ایسے ہی کراتا ہے؟ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وارنٹ کی تعمیل غیر قانونی تھی؟ یہ جاننے کے لیے تعمیل کا طریقہ پوچھ رہا ہوں۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ عمران خان نے انکوائری جوائن نہیں کی، وارنٹ قانونی طور پر جاری ہوئے، عمران خان نے بہت سے مواقع پر گرفتاری سے بچنے کے لیے مزاحمت کی جہاں گرفتاری میں مزاحمت کا خدشہ ہو وہاں فورس استعمال کی جاتی ہے،  ہم عمران خان کو چوبیس گھنٹے تحویل میں رکھ کر متعلقہ عدالت پیش کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ وارنٹ تو تھے مگر جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اس پر ہمیں تشویش ہے، ہم نے دیکھنا ہے کہ گرفتاری قانون کے مطابق ہے یا حراست غیر قانونی ہے، رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ہے، خدمات قانون اور قاعدے سے ہی لی جا سکتی ہیں۔

سینئر وکیل راجہ رضوان عباسی نے کہا احاطہ عدالت سے گرفتاری پر کوئی پابندی نہیں، عدالتی تقدس کے لیے کمرہ عدالت سے گرفتاری نہیں کی جاتی۔ 

عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا دیکھنا یہ ہے کہ ججز گیٹ نیب کے لیے کیسے کھلا؟ عمران خان کو جس طرح لے کر گئے انہیں یہاں پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔ 

عدالت نے دوران سماعت ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب کو کیس کے میرٹس پر بات کرنے سے منع کر دیا۔

 آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اگر رینجرز کی تعیناتی ہونی ہو تو ہمارے علم میں ہوتا ہے، اس وارنٹ کی تعمیل بھی ہمارے علم میں تھی، رینجرز اسلام آباد پولیس کی کمانڈ میں ہوتے ہیں۔ 

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا عمران خان کو پہلے بھی گرفتار کرنے کی کوشش ہوئی تو سب نے دیکھا کہ کیا ہوا۔ 

اس پر چیف جسٹس نے کہا یہ تو اس بات کا کوئی جواز نہیں، کیا لیگل کمیونٹی اور عدلیہ پر حملے کو اس طرح سے جانے دیا جائے؟ 

عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور پھر گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دے دیا۔

عدالت نے احاطہ عدالت میں توڑ پھوڑ اور وکلا پر تشدد کی ایف آئی آر درج کرانے اور رجسٹرار ہائیکورٹ کو معاملے کی انکوائری کر کے 16 مئی تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا جبکہ آئی جی اسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کر دیے۔

خیال رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے چیئرمین تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان کو گرفتار کرلیا ہے۔

مزید خبریں :