’زنجیروں میں جکڑا‘ سیاسی نظام

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ایک گریڈ 22کے افسر سے وزیراعظم عمران خان نے پوچھا، ’’یہ بتائیں مجھ سے غلطیاں کیا ہو رہی ہیں اور انہیں بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ اس افسر نے، جو اب چیف سیکریٹری کی پوزیشن پر ہیں ،جواب دیا، ’’سر آپ نے اپنی ترجیحات نہیں دیکھیں اور مختصر وقت میں بہت جگہ ہاتھ مارنے کی کوشش کی جسے اب سمیٹ نہیں پا رہے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے بھی بہتری لائی جا سکتی ہے بس تین چار بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔‘‘ یہ بات انہوں نے مجھ سے ذاتی طور پر نہ کی ہوتی تو شاید میں ذکر بھی نہ کرتا۔

اب مجھ کو نہیں پتا خان صاحب نے ماضی سے کتنا سبق سیکھا ہے مگر حال ہی میں آزاد کشمیر اور اتوار کو کراچی میں جو ہوا اس میں ان کیلئے خاصا سبق موجود ہے ’’دھاندلی‘‘ کے الزامات اپنی جگہ مگر ان انتخابات نے خود پی ٹی آئی کے اندر کی تنظیمی خامیوں کو بہت حد تک واضح کر دیا ہے۔ اب چند دن پہلے پی ٹی آئی کے مرکزی صدر (جس پوزیشن کی پارٹی آئین میں گنجائش ہی نہیں ہے) اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے ایک انٹرویو میں یہ کہہ کر کہ’’ پنجاب میں پارٹی کی جیت کی صورت میں وزارت ِاعلیٰ یا تو ان کو یا مونس الٰہی کو دینے کا وعدہ کیا گیا ہے‘‘، ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ پارٹی میں پنجاب کے ایک عہدہ دار کے مطابق چوہدری صاحب یا ان کے صاحبزادے کی ’قبولیت‘ پر سوالیہ نشان موجود ہے۔ 

جہاں پورے نظام پر ہی سوالات اٹھ رہے ہوں وہاں تو چوہدریوں کی پارٹی میں قبولیت سے پہلے خود عمران خان کی ’قبولیت‘ ہماری ’ریاستی اشرافیہ‘ میں نہیں ہو پارہی، شاید یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلے کے باوجود 14مئی کو الیکشن ہوگا کہ نہیں اس کا آج تک کسی کو یقین نہیں۔’مقبولیت اور قبولیت‘ کا مسئلہ آج کا نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا مقبول ترین اور انتہائی ذہین سیاست دان تھا مگر جب ’قبولیت‘ نہ رہی تو پھانسی تک سے گریز نہ کیا گیا۔ آج اس دور کے زیادہ تر جرنیل اعتراف کرتے ہیں کہ وہ بڑی سیاسی غلطی تھی۔ اس میں بہرحال ہماری اعلیٰ عدلیہ کا کردار بھی واضح ہے، پھانسی چڑھا کر وہ بھی اعتراف کر رہے ہیں اور جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی کیا مگر وہ تو بعد میں چیف جسٹس بھی بنے۔

1986 میں محترمہ بےنظیر بھٹو جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس آئیں تو ان کا سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا استقبال لاہور میں کیا گیا۔ وہ اپنی مقبولیت کے عروج پر تھیں اور جنرل ضیاء الحق، وزیراعظم محمد خان جونیجو سے سخت ناراض تھے کہ انہوں نے انہیں واپس لانے میں کردار ادا کیا۔ جونیجو صاحب بہترین سیاست دان تھے جنہوں نے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلے ’شہری آزادیوں‘ اور اخبارات سے پابندیاں ہٹائیں۔ ضیاء الحق کی طیارہ حادثہ میں موت کے بعد الیکشن کے اعلان سے ہی واضح تھا کہ پی پی پی دوتہائی اکثریت لے جائے گی مگر محترمہ کی ’قبولیت‘ نہیں ہو پارہی تھی لہٰذا اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا جس کے بظاہر قائد نواز شریف تھے مگر اصل قائد ISI کے سابق سربراہ جنرل حمید گل تھے جنہوں نے سیاست دانوں کی ’قبولیت‘ کا مشن اٹھایا ہوا تھا، بعد میں انہوں نے عمران خان کو بھی اپنے ساتھ سیاست کرنے کا مشورہ دیا ’صاف ستھرے‘ لوگوں کی جماعت بنانے کے نام پر۔ خان نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ وہ ابتدا میں ان سے متاثر تھے مگر جلد ہی ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔

غرض یہ کہ 1988 کے الیکشن میں پی پی پی کو دوتہائی اکثریت نہ لینے دی گئی۔ جنرل گل نے ایک انٹرویو میں خود اس بات کا اعتراف کیا۔ بی بی کو بھی جلد اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ پاکستان میں محض مقبول ہونا اقتدار میں آنےکیلئے کافی نہیں غیر سیاسی قوتوں کی ’قبولیت‘ بھی ضروری ہے لہٰذا بقول جنرل گل، ’’الیکشن میں کامیابی کے بعد محترمہ سے کراچی میں ایک دوست کے گھر تفصیلی ملاقات میں، میں نے ان کو سب کچھ بتا دیا خاص طور پر IJIبنانے کے پیچھے ان کے بارے میں فوج کے خدشات۔ ساتھ میں افغان پالیسی کے بارے میں ریاستی بیانیہ۔ سچ پوچھیں تو ان کی گفتگو سن کر مجھے احساس ہوا کہ وہ ایک سچی محب وطن خاتون ہیں۔‘‘ پھر بھی ان کی قبولیت نہیں ہوئی اور 18ماہ میں حکومت فارغ کر دی گئی۔ پہلے ہاتھ باندھ کر اقتدار دیا گیا پھر لے لیا گیا اور دوسرے ہاتھ بندھے سیاست دان میاں نواز شریف کو دیا گیا جس کیلئے 1990میں 90کروڑ کی رقم IJIکے لیڈروں میں مبینہ طور پر تقسیم ہوئی پھر اس کی ’قبولیت‘ بھی واپس لے لی گئی مگر چونکہ اس کے پیچھے پنجاب کی اشرافیہ کھڑی تھی تو اس نے ہمت کر کے ٹی وی پر آ کر کہہ دیا، ’’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ سپریم کورٹ میں بھی اس کی قبولیت ہو گئی۔ اب یہ الگ بات کہ اس وقت چیف جسٹس نسیم حسن شاہ تھے۔

یہ تجربات کی سیاست اور ٹیبل ٹینس کا کھیل 1988 سے آج تک جاری ہے کھیلنے والے سیاست دان نہیں ہیں وہ تو بس ’مہرے‘ ہیں ٹیبل ٹینس کی ’بال‘ کی طرح کبھی اس پار کبھی اس پار ۔یہ کھیل جنرل ضیاء سے جنرل جیلانی، جنرل گل سے لے کر جنرل باجوہ اور جنرل فیض سے ہوتا ہوا آج بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ یہ بچارے سیاسی کردار تو محض شوقیہ کھلاڑی ہیں بس اقتدار دے دو جیسے بھی دینا ہو۔بےنظیر بھٹو راستے سے ہٹائی گئیں تو آج تک قتل کی صحیح تحقیقات ہی نہیں ہوئیں ورنہ بہت سے کردار بے نقاب ہو جاتے۔ جنرل مشرف بھی اس فہرست میں آتے ہیں جس میں جنرل ضیاء یا باجوہ آتے ہیں۔ 2008ءمیں عمران کیلئے راستہ بنا اور 2018میں انہیں ’باجوائی سیاست‘ کے تحت اقتدار دے دیا گیا۔ انہوں نے بھی وہی غلطی کی جو بےنظیر نے کی تھی، 1988میں ’قبولیت‘ کی شرائط مان کر اور جب آپ ایسی کمزوری دکھاتے ہیں تو پھر غلطی پر غلطی کرتے چلے جاتے ہیں۔ آج جس ’شخص‘ کا وہ نام لے کر سخت زبان استعمال کر رہے ہیں ان کے بارے میں جاننے سے پہلے وہ 2018 کے الیکشن میں کراچی میں کیا ہوا تھا جان لیں ورنہ اتوار کے روز بلدیاتی ضمنی الیکشن کے نتائج دیکھ لیں۔

یہی ’زنجیروں میں جکڑی‘ ہماری سیاست ہے ’قبولیت‘ نہیں رہتی تو فیصلے مقبولیت کی بنیاد پر بھی قبول نہیں کئے جاتے۔ جس ملک میں آمروں کو آئینی تحفظ دیا جاتا ہو، آئین میں ترمیم کا اختیار دیا جاتا ہو وہاں مقبول لیڈر کی ’قبولیت‘ اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک وہ ’زمین‘ پر نہیں آتا۔ عمران کو جلد احساس ہوگا کہ ’میثاق سیاست‘ کیوں ضروری ہے۔ شرائط پر سیاست نہیں کاروبار کیا جاتا ہے یہ بات جتنی جلدی سیاست دان سیکھ لیں بہتر ہے ورنہ زنجیر بندھی سیاست کریں


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔