اسلام آباد ہائیکورٹ کا فواد چوہدری کو رہا کرنےکا حکم

فوٹو: ٹوئٹر
فوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد ہائی کورٹ نے رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں فواد  چوہدری کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے فواد چوہدری کو عدالت میں پیش کرنےکا حکم دیا۔

فواد چوہدری کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری بکتربند گاڑی میں موجود ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے حکم پر فواد چوہدری کو عدالت میں  پیش کردیا گیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے ایک آرڈر جاری کیا جس پر عمل نہیں ہوا، آرڈر نہ آئی جی اسلام آباد اور  نہ ہی کسی اور  نے دیکھا، جب آپ نے انہیں پکڑا  تو اس وقت آرڈر  دکھایا گیا، آپ کے پاس آرڈر کی تصدیق کے کئی طریقے تھے، 9 مئی خوشگوار دن نہیں تھا، خدشات درست تھے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست گزار  رہائی کے بعد انڈر ٹیکنگ دیں کہ وہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی نہیں کریں گے، یہ بھی یقین دہانی کرائیں کہ قانون کی خلاف ورزی نہیں کریں گے، انڈر ٹیکنگ کی خلاف ورزی ہوئی تو  ان ارکان پارلیمان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو گی، اس بنیاد پر ارکان پارلیمان نا اہل بھی ہوسکتے ہیں، عدالت وقت دے رہی ہےکہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اورآئی جی اس معاملے کو دیکھیں۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبادکا کہنا تھا کہ کچھ حقائق عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، عدالتی حکم کی کاپی آئی جی آفس اور لاء افسران کونہیں دی گئی، بائیو میٹرک بھی نہیں کرائی گئی۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ آپ جج نہیں ہیں، یہ ہم نےدیکھنا ہےکہ بائیو میٹرک ہے یا نہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کو کسی مقدمے میں گرفتار نہیں کیا گیا، اگرکسی مقدمے میں گرفتاری ہوتی تو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری ہوتا، عدالت  نے کسی بھی مقدمے میں گرفتاری سے روکا تھا، اگر مقدمے میں گرفتارکرتے تو میں بھی رہائی کا کہتا، عدالت نے جس پٹیشن پرگرفتاری سے روکا اس میں بھی ڈی سی فریق نہیں تھے، فواد چوہدری نے اپنے کنڈکٹ سے ثابت کرنا ہے کہ وہ  پرامن شہری ہیں، 9 مئی کے  واقعات میں قوم کا اربوں روپےکا نقصان ہوا۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ  ہم ان کے خلاف کارروائی سے تو نہیں روک رہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ میں پہلے سارا دن ہائی کورٹ میں تھا اور  اگلے تمام دن سپریم کورٹ میں۔

ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ عمران خان کے کیس میں عدالت نے گرفتاری سے روکتے ہوئے ایم پی او کا الگ سے ذکرکیا، اگر وہ صرف مقدمات میں گرفتاری روکتے تو ایم پی اوکے تحت گرفتاری ہوسکتی تھی۔

وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا کہ  ڈپٹی کمشنر کو اب تو ہائی کورٹ کے حکم سے متعلق معلوم ہوگیا، عدالت فواد چوہدری کی گرفتاری روکنےکے حکم میں توسیع کردے، فواد  چوہدری کو متعلقہ عدالت سے رجوع کرنےکی مہلت دی جائے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا پولیس کو فواد چوہدری کو گرفتاری سے روکنےکی کوئی دستاویز دکھائی گئی؟

بابر اعوان کا کہنا تھا کہ آرڈر  سنایا گیا تو  پولیس افسر نےکہا کہ مجھے انگریزی نہیں آتی، فواد چوہدری کو  جن خدشات پر گرفتار کیا گیا ان کا مواد موجود ہی نہیں۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ جو  واقعات ہوئے  ان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، فواد چوہدری ایک اہم شخصیت ہیں، وفاقی وزیر رہ چکے ہیں، کیا آپ کو  پاکستان کے ہجوم کا نہیں معلوم؟ آپ کہتے ہیں باہر نکلو تو کیا مطلب لے  رہے ہوتے ہیں کہ صرف شریف لوگ باہرنکلیں؟ اس مواد پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یہ آرڈر پاس نہ کریں تو کیا کریں؟ میرا مسئلہ ہےکہ میں بہت واضح ہوں اور کھل کربات کرتا ہوں، فواد چوہدری کو عدالت بلانے کا مقصد انہیں رہا کرنا تھا، اس عدالت نے یہ مواد پہلے نہیں دیکھا تھا۔

عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا، بعد ازاں عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے فواد چوہدری کی گرفتاری غیر قانونی قرار دے دی اور انہیں رہا کرنےکا حکم دے دیا۔

مزید خبریں :