پروجیکٹ عمران کی باقیات

ہمارے ملک کا سب سے بڑا لمیہ یہ ہے کہ یہاں کچھ طاقتور افراد جوبااثر اداروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے انفرادی اور ادارہ جاتی مفادات کی خاطر ملک کی سیاسی لیڈر شپ کو سلیکٹ یعنی نامزد کرتے ہیں اور پھر انہیں عوام پر مسلّط کر دیتے ہیںچاہے ان میں کوئی قابلیت ہو یا نہ ہو ۔ 

یہ سارا کھیل جو عوام کے نام پر کھیلا جاتا ہے اس میں عوام کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا لیکن اُن نامزد افراد کی نا اہلیوں اور نالائقیوں کا سارا بوجھ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔برسوں سے جاری اس گھنائونے کھیل کو ختم کرنے کیلئے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے 2006میںایک معاہدہ کیا جسے میثاقِ جمہوریت کا نام دیا گیا۔ جس کے بعد سیاسی مفاہمت کے اثرات دکھائی دیے اور 2008کے انتخابات کے بعد آصف علی زرداری کی کوششوں سے دونوں بڑی جماعتیں مخلوط حکومت بنانے پرراضی ہو گئیں۔اگرچہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے جوڈیشل ایکٹیوازم نے ملٹری ایکٹیوازم کی جگہ لے لی لیکن اس کے باوجود پاکستان کی تاریخ میں تقریباََ 66برس کے بعد پہلی سویلین حکومت نے اپنی مدّت پوری کی۔

 اس میں سب سے خاص بات یہ تھی کہ 2008میں بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کو 2013میں ہونے والے عام انتخابات میں شکست ہو گئی اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہارنے والی جماعت نے اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے نئی حکومت کو اقتدار منتقل کر دیا۔ اس عمل کو سراہنے کی بجائے بادشاہ گروں نے اس خیال سے کہ یہ جمہوری اور سیاسی استحکام کہیں ان کے غیر آئینی عمل دخل کو کمزور نہ کر دے، دوبارہ سے اپنی سازشوں کا آغاز کر دیا اور عمران پروجیکٹ شروع کر دیا۔ جس نے تیزی سے بہتر ہوتی معیشت، کو دوبارہ پٹڑی سے اتار دیا۔ 

جنرل شجاع پاشا سے شروع ہونے والے اور جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ تک پہنچتے پہنچتے اس پروجیکٹ نے پاکستان کو ہر لحاظ سے برباد کر دیا۔ کیونکہ اس مرتبہ عمران خان کی شکل میں اسٹیبلشمنٹ نے جو مہرہ تیار کیا تھا وہ سیاسی شعور سے مکمل عاری تھا۔ اس کے علاوہ اس میں تکبّر، احسان فراموشی اور انتقام کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس کی بدترین کارکردگی نے ملک کی معیشت کا دیوالیہ نکال دیا تھا۔ اور خارجہ محاذ پر پر بھی پاکستان تنہا ہو چکا تھا۔ پاکستان کی شرح نمو1952ء کے بعد پہلی مرتبہ منفی درجے تک چلی گئی اور یہ واقع کو ویڈ کی وبا پھیلنے سے پہلے کا ہے۔ اس کے پہلے سال کے دوران ہی اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہو گیا کہ جس شخص کو اس نے ہر ضابطہ اخلاق بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام پر مسلّط کیا تھا۔

اسے ملکی امور سے زیادہ اپنی ذات کی تشہیر اور دیگر ’’پسندیدہ مشاغل‘‘ سے ہی فرصت نہ تھی اسے بارہا سمجھایا گیا کہ وہ عثمان بزدار جیسے نا اہل شخص کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ سے ہٹائے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ جب عمران خان کی حکومت میں کرپشن 24درجے بڑھ گئی اور ملک کے ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ گیا اور اسے لانے والے تشویش کا شکار ہوگئے تو اس نے ان کے خلاف بھی دشنام طرازی اور مزاحمت کا محاذ کھول لیا۔ 

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج کو بحیثیت ادارہ اس قدر بدنام کیا کہ الامان الحفیظ۔ اپنے دورِ اقتدار میں اپنی بدترین کارکردگی کی وجہ سے وہ غیر مقبول ہو چکا تھا اپنی حکومت میں پاکستان کی معیشت، سیاست اور سیاسی اخلاقیات کو تباہ و برباد کرنے کے بعد اب بحیثیت اپوزیشن لیڈر اس نے رہے سہے پاکستان کو مکمل تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے وزیرِ خزانہ شوکت ترین کے ذریعے آئی ایم ایف کو پیغام بھیجا کہ وہ پاکستان کو قرضہ نہ دے۔ اس سے پہلے وہ بد ترین شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر اس معاہدے کی جاتے جاتے خود ہی خلاف ورزی کر کے، پاکستانی معیشت کا بھرکس نکال چکا تھا۔

 پروجیکٹ عمران اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ کا مشترکہ پروجیکٹ تھا۔ جس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی شامل تھے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے تو اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے خود کو نیوٹرل کر لیا۔ جسے عمران خان نے جانور قرار دے دیا لیکن عدلیہ میں پروجیکٹ عمران خان کی باقیات نے عدل کے ترازو کا توازن ابھی تک عمران خان کے حق میں رکھا ہوا ہے۔ ماہرِ قانون اور لیگل ایڈوائزر سائوتھ ایشیا آئی سی جے ریما عمر نے جو میری بہو بھی ہیں گزشتہ اٹھارہ اہم مقدمات میں عدلیہ کے جانبدار بنچوں کا ذکر کیا ہے۔ جس میں اکثر مخصوص ججوں کے بنچ تھے۔ بحیثیت اپوزیشن لیڈر عمران خان نے جس طرح انصاف سے بچنےکیلئے زمان پارک اور عدالتوں میں اپنی متوازی حکومتیں بنا کر ریاست کا مذاق اُڑایا ان میں سرِ فہرست کبھی نہ بھولنے والا 9مئی 2023کا سانحہ ہے۔

 جس میں کور کمانڈر کے گھر اور شہدا ء کی نشانیوں کو نذرِ آتش کر دیا اور جی ایچ کیو پر دھاوا بول دیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے پاس آئین کی تشکیل، ایٹمی پروگرام، سی پیک اور موٹر وے جیسے منصوبوں کا کریڈٹ ہے جبکہ پی ٹی آئی کو صرف یہی ’’تاریخی کریڈٹ‘‘ حاصل ہے کہ اس نے فوج پر براہِ راست حملے کرتے ہوئے ریاست سے بغاوت کی۔ کیا ان حالات میں عمران خان اور ان کی باقیات کسی رو رعایت کے مستحق ہے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔