رُکو اور سُنو سول سوسائٹی کی اپیل

جب نشیمن میں آگ لگی ہو اور اسے بھڑکانے والے بھی بہت ہوں تو سیاسی لوٹ مار کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ جب سماج کی بڑی قوتیں اوسان خطا کر بیٹھیں تو گیاہستان کی آگ بجھائے تو کون؟ 

یہ سب مارا ماری ہم پہلے بھی کئی بار دیکھ چکے ، آدھا ملک گنوا بیٹھے، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بے چینی اور خلفشار اب بھی جاری ہے اور کوئی شنوائی نہیں، ریاست کے تینوں ستون باہم گتھم گتھا ہیں، سنسرشپ زدہ میڈیا سیاسی خلفشار بیچ کر گزارہ کررہا ہے، سوشل میڈیا افواہ سازی اور دشنام طرازی میں سرپٹ دوڑے جارہاہے، نوجوانوں کا جم غفیر نالاں ہے اور سخت بیزار اور جنگ پہ آمادہ، مہنگائی ہے کہ سارے آسمان پھلانگ چکی اور روپیہ پاتال میں، معیشت کا پہیہ اُلٹ سمت میں گامزن اور ریاست کنگال۔ 

آخر بچا کیا ہے؟ کیا ابھی کوئی کسر باقی ہے جو سیاستدان ایک دوسرے کو زمین بوس کرنے پہ تلے بیٹھے ہیں۔ کوئی اصول بچا، نہ آئین کی پاسداری، نہ اداروں کی حدود برقرار رہیں۔ ہر طرف خانہ جنگی ہی خانہ جنگی۔ سول وار کا خطرہ سر پر اور عوامی لاوا اب پھٹا کہ اب پھٹا۔ فری فار آل کا سماں ہے اور فری فال آف آل کی تیاریاں ہیں۔ اس ہمہ جہت بحران سے ایسے ایسے موذی اژدھےجنم لے سکتے ہیں جو ایک دوسرے کو اور سب کو نگل سکتے ہیں۔ کیا میں کہیں زیادہ الارمسٹ یعنی سنسنی خیزی کا مرتکب تو نہیں ہورہا؟

آخر ایسا کیوں ہوا ہے؟ جتنے منہ اتنی باتیں! موٹی بات کیا ہے؟ اور بنیادی تضادات کیا ہیں؟ جو حل طلب ہیں۔ سطحی، یکطرفہ اور متعصبانہ سوچ جس کے گرد ساری نشریاتی و بیانیاتی دھماچوکڑی مچی ہے جو اصل ایشوز کے حقیقی حل کو اوجھل کئےجارہی ہے۔ پہلا مسئلہ ریاستی بحران اور شہری و ریاست کے آمرانہ رشتے کا ہے۔ ایک اتھاریٹیرئین ریاست اپنے ہی بوجھ تلے گررہی ہے اور مغلوب شہری اور جدید نوآبادیاتی ریاست کا جبر برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ جو مارشل لائوں سے لے کر دو سَروں والا ہائبرڈ نظام ٹوٹ پھوٹ گیا ہے، اسے دوبارہ نئے شراکت داروں کے ساتھ بحال کرنے کی کوششیں ناکام رہیں گی۔

 سیدھی بات ہے عوام کو حق حکمرانی دو اور جمہوریہ کے رستے سے ریاستی بیوروکریٹک ڈھانچے پیچھے ہٹ جائیں۔ ادارے اپنی آئینی حدود میں سمٹ جائیں۔ دوسرا مسئلہ دست نگری کی مفت خور معیشت اور اس سے جڑے کرایہ خور اشرافیہ سے جان چھڑائی جائے اور ایک عوام دوست، جدید پیداواری خود کفیل معیشت کی جانب بڑھا جائے اور عوام کیلئے بنیادی انسانی و معاشی سہولتوں، تعلیم و صحت اور روزگار کا بندوبست کیا جائے۔ تیسرا مسئلہ وفاقی اکائیوں کو برابر کا حصہ دار بنایا جائے اور چھوٹے صوبوں پہ نوآبادیاتی تسلط ختم کیا جائے۔ چوتھا مسئلہ قومی ریاست کی اکائیوں کی تاریخی و مساویانہ بنیاد پر جمہوری اور غیر فرقہ وارانہ تشکیل نو کی جائے۔

 ریاست کو خطرہ فقط دہشتگردی سے نہیں، فسطائی و مذہبی انتہا پسندانہ خیالات سے بھی ہے۔ دور کی تو کوئی یہاں سوچتا ہی نہیں۔ فوری حل شفاف انتخابات ہیں اور سیاسی جماعتوں میں پرامن بقائے باہم کی یقین دہانی اور معاشی کنگالی سے نجات ہے۔ اس فوری بحران کے حل کیلئے مضطرب سول سوسائٹی نے پھر سے ایک اپیل جاری کی ہے جس کے مندرجات ذیل ہیں:

’’ سرکردہ سول سوسائٹی کے مصالحتی گروپ (Mediators The) سیاستدانوں، صحافیوں، وکلاء اور متعدد سول سوسائٹی کی تنظیمیں کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے کہ:’’تمام سیاسی مسائل کو تصادم کی بجائے جمہوری اصولوں کے مطابق مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے‘‘ کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت شہریوں پر مقدمہ چلانے کے بہیمانہ فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے، انہوں نے آئین کے آرٹیکل 10A اور سول عدالتوں میں مناسب عمل کی پیروی کرنے کی HRCP کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے تقاضہ کیا ہے کہ حالیہ ہنگاموں میں مبینہ طور پہ ملوث ملزموں کے خلاف مقدمات سویلین عدالتوں میں کھلے طور پہ چلا کر انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔

ہر قسم کے تشدد، سرکاری تنصیبات کی توڑ پھوڑ اور قابل تعظیم شہدا کی یادگاروں کی نہایت قابل مذمت توہین و مسماری اور نفرت پھیلانے کی مذمت کرتے ہوئے، دی میڈیٹرز پنجاب اور پختون خوا کے نوجوانوں کے غصے اور بڑے پیمانے پر پرجوش غصے کے بارے میں سنجیدگی سے جائزہ لینے اور اسکے پیچھے چھپے ہوئے ریاستی، معاشی، سیاسی و سماجی اور نظریاتی عوامل کا جائزہ لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

 دی میڈی ایٹرز گروپ 9مئی کی تباہی کی ایک آزاد اور قابل اعتماد انکوائری کا مطالبہ کرتا ہے اور ایک قابل اعتماد عدالتی عمل کے ذریعے مبینہ ملزموں کے خلاف منصفانہ قانونی چارہ جوئی اور شرپسندوں سے نمٹنے میں سیکورٹی کی ایک بڑی کوتاہی کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔

انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور شہباز حکومت اور پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ افہام و تفہیم اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تمام اسمبلیوں کیلئے ایک ہی تاریخ کو ہونے والے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرنے میں سہولت فراہم کریں، جو کہ اسمبلیوں کی موجودہ میعاد سے قطعی طور پہ آگے نہ ہواور تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور مساوی شراکت سے آزادانہ اور منصفانہ حق رائے دہی کو یقینی بنائیں۔ نیز یہ کہ کسی پارٹی کو کالعدم قرار دینا نہ صرف ناقابل عمل ہے بلکہ خلاف جمہوریت بھی ہے۔ ایسی کسی کوشش کے خلاف سخت عوامی ردعمل ہوگا۔

میڈی ایٹرز سوشل میڈیا پر نئی پابندیوں اور الیکٹرانک میڈیا کی سنسر شپ پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ تمام لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں جو تشدد میں ملوث نہیں ، خاص طور پر خواتین اور صحافیوں اور 18سال سے کم عمر نوجوانوں کو رہا کیا جائے۔

مشترکہ بیان پر سینیٹر رضا ربانی، سینیٹر مشاہد حسین، نفیسہ شاہ ایم این اے، صدر بی این پی اختر مینگل ایم این اے، محمود خان اچکزئی صدر پی کے میپ، محسن داوڑ ایم این اے، فرحت اللہ بابر پی پی پی، اختر حسین صدر عوامی ورکرز پارٹی، فاروق طارق صدرحقوق خلق موومنٹ اور 150سے زائد اہم شخصیات کے دستخط ہیں۔

ماہرین اقتصادیات: ڈاکٹر حفیظ پاشا ، ڈاکٹر اکمل حسین، ڈاکٹر پرویز طاہر، ڈاکٹر قیصر بنگالی، سابق وائس چانسلر جی سی حسن شاہ، ڈاکٹر نیئر، پروفیسر سرفراز اور دفاعی امور کے ماہر ایئر مارشل شہزاد چوہدری۔

بار کے نمائندے: چیئرمین پاکستان بار کونسل حسن رضا پاشا، اختر حسین، ممبر جوڈیشل کمیشن، عابد ساقی، صباحت رضوی اور بار ایسوسی ایشن کے دیگر عہدیداران۔

سینئر صحافی: زاہد حسین، امتیاز عالم، سافما سیکرٹری جنرل، حسین نقی، سہیل وڑائچ، مجیب الرحمان شامی، طلعت حسین، اظہر عباس، عاصمہ شیرازی، کاظم خان صدر سی پی این ای، جبار خٹک،افضل بٹ صدر پی ایف یو جے، ناصر زیدی ، شہزادہ ذوالفقار، محمد ولید، علامہ صدیق اظہر، تنزیلہ مظہر اور 50 سے زائد دیگر۔

سول سوسائٹی کی تنظیمیں: محمد تحسین، ایس اے پی، محمد ایوب این پی، خاور ممتاز ، شیما کرمانی، تحریک نسوان، عرفان مفتی، جوائنٹ ایکشن کمیٹی، پیٹر جیکب، کرامت، پائلر، صدر نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن وغیرہ۔‘‘کوئی سنے تو جانیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔