Time 22 مئی ، 2023
پاکستان

آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن نے کارروائی کا آغاز کر دیا

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

اسلام آباد: آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن نے کارروائی کا   آغاز کر دیا، جسٹس قاضی فائز  عیسیٰ کا کہنا ہے کہ کمیشن کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے نہ کرے گا۔

آج اٹارنی جنرل عثمان منصور  اعوان کمیشن میں پیش ہوئے، سربراہ کمیشن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کمیشن کس قانون کے تحت تشکیل دیا گیا ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیشن انکوائری کمیشن ایکٹ 2016 کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔

اس موقع جوڈیشل کمیشن نے آڈیولیکس کی کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کردیا،کمیشن کا کہنا  تھا کہ کوئی حساس معاملہ سامنے آیا تو ان کیمرا کارروائی کی درخواست کا جائزہ لیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کمیشن کی کارروائی سپریم کورٹ اسلام آباد بلڈنگ میں ہوگی، جن سے متعلق انکوائری کرنی ہے ان میں 2  بڑی عمر کی خواتین بھی شامل ہیں، اگر  درخواست آئی تو کمیشن کارروائی کے لیے لاہوربھی جاسکتا ہے۔

جوڈیشل کمیشن نے اٹارنی جنرل کو کمیشن کے لیے آج ہی موبائل فون اور سم فراہم کرنے کی ہدایت کردی، جوڈیشل کمیشن کے لیے فراہم کردہ فون نمبر پبلک کیا جائےگا۔

جوڈیشل کمیشن نے اٹارنی جنرل کو آڈیوز کی تصدیق کے لیے متعلقہ ایجنسی کا تعین کرنے کی ہدایت بھی کی۔

کمیشن کسی جج کیخلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے نہ کریگا: جسٹس فائز 

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آڈیو لیکس کی تصدیق کے لیے پنجاب فارنزک ایجنسی سے رابطہ کیا جاسکتا ہے، اگرکوئی شخص کہےکہ آڈیو میں آواز  ان کی نہیں یا ٹیمپرڈ ہے تو اس کی تصدیق پہلے سےکرنا ہوگی، فارنزک ایجنسی کا ایک رکن کمیشن کی کارروائی میں موجود ہو تاکہ اگر کوئی شخص انکار کرے تو فوری تصدیق ہو، انکوائری کمیشن کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے نہ کرےگا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کمیشن صرف حقائق کے تعین کے لیے قائم کیا گیا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ  اختیار  میں مداخلت نہیں ہوگی، تمام گواہوں کی نہ صرف عزت کریں گے بلکہ جواب میں عزت کی توقع بھی کرتے ہیں،کمیشن کو اختیار ہےکہ تعاون نہ کرنے  والوں کے سمن جاری کرسکے، کمیشن صرف نوٹس جاری کرے گا، کوشش ہوگی کسی کے سمن جاری نہ ہوں۔

سربراہ جوڈیشل کمیشن کا کہنا تھا کہ حکومتی افسران کے  پاس پہلے ہی انکار کی گنجائش نہیں ہوتی، عوام سے معلومات کی فراہمی کے لیے اشتہار جاری کیا جائےگا، کمیشن کی کارروائی ہفتےکے روز ہوگی۔

جوڈیشل کمیشن نے اٹارنی جنرل کو تمام متعلقہ افراد کو نوٹس جاری کرنے اور ان کی تعمیل فوری کرانے کی ہدایت بھی کی،کمیشن کا کہنا تھا کہ اگرکوئی فریق نوٹس موصول نہ کرے تو  اس کے گھر کے باہر چسپاں کردیا جائے، آڈیو لیکس سے متعلق تمام افراد کے نام، رابطہ نمبر اور پتہ بھی فراہم کیا جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے ہدایت کی کہ نوٹس متعلقہ شخص کو ملنے پر اس کا ثبوت تصویریا دستخط کی صورت میں فراہم کیا جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کمیشن کا سیکرٹری مقرر کرنا ہماری ذمہ داری ہے، جوڈیشل کمیشن اپنا  آرڈر  اپلوڈ کرےگا۔

جوڈیشل کمیشن کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل سے ان کیمرا کارروائی کا پوچھا گیا جس پر اٹارنی جنرل نے حساس معلومات کے علاوہ تمام کارروائی کھلی عدالت میں ہونےکی حمایت کی،  حکومت کسی سطح پرکارروائی ان کیمرا کرنے یا جگہ تبدیل کرنےکا کہہ سکتی ہے، اٹارنی جنرل آڈیوز اور ان کے مصدقہ ٹرانسکرپٹ کی 4 کاپیاں بدھ تک جمع کرائیں، 2 افراد کی آڈیو میں گفتگو اگر کسی تیسرے فریق کے بارے میں ہے تو وہ کارروائی میں شریک ہوسکتا ہے، آڈیوز سے متعلق تمام افراد کے بیان ریکارڈ ہوں گے۔

کمیشن کی ہرکارروائی الگ سے ویب سائٹ پر لگانے کی ہدایت

جوڈیشل کمیشن نے ہدایت کی کہ کمیشن کی ہرکارروائی الگ سے ویب سائٹ پر لگائی جائے تاکہ کوئی ابہام نہ رہے، پی ڈی ایف کی صورت میں کارروائی کا حکم نامہ اپلوڈ کریں گے تا کہ ردوبدل نہ ہوسکے۔

سربراہ جوڈیشل کمیشن کا کہنا تھا کہ سنا ہے پی ڈی ایف میں بھی تبدیلی ہوسکتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت کا کمیشن کی کارروائی تبدیل کرنےکا کوئی ارادہ نہیں۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آپ کربھی نہیں سکتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ حکومت نے میری چھٹیاں خراب کردی ہیں، اس پر بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم افغان کا کہنا تھا کہ  صرف آپ اکیلے نے نہیں، ہم سب نے بھی چھٹیوں پر جانا تھا، اس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ  میں اکیلا نہیں بیگم کے ساتھ جا رہا تھا۔

جوڈیشل کمیشن نےکارروائی27 مئی صبح 10 بجے تک ملتوی کردی۔

کمیشن کا مقصدکیا ہے؟

خیال رہے کہ آڈیو لیکس کے معاملے پر وفاقی حکومت نے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا ہے، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن میں  بلوچستان ہائی کورٹ  اور  اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شامل ہیں۔

کمیشن جوڈیشری کے حوالے سے لیک ہونے والی آڈیوز پر تحقیقات کرےگا، یہ آڈیو لیکس درست ہیں یا من گھڑت،کمیشن تحقیقات کرےگا۔

کمیشن اپنی رپورٹ 30 دن کے اندر وفاقی حکومت کو پیش کرے گا، وکیل اور صحافی کے درمیان بات چیت کی آڈیو لیک کی بھی تحقیقات ہوگی، سابق چیف جسٹس اور وکیل کی آڈیو لیک کی بھی تحقیقات ہوگی، کمیشن سوشل میڈیا پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے داماد کی عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کے الزامات کی آڈیو لیک کی تحقیقات کرےگا،کمیشن چیف جسٹس کی ساس اور ان کی دوست کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات کرے گا۔

مزید خبریں :