Time 23 مئی ، 2023
پاکستان

9 مئی واقعات: آرمی اور سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کیسے ہوسکتی ہے

آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی میں ایسے لوگوں کیخلاف کارروائی کا ذکر ہے جو دفاعی فورسز کا حصہ نہیں/ فوٹو سوشل میڈیا
آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی میں ایسے لوگوں کیخلاف کارروائی کا ذکر ہے جو دفاعی فورسز کا حصہ نہیں/ فوٹو سوشل میڈیا

اسلام آباد: فوجی تنصیبات، عمارتوں وغیرہ پر حملہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔ چاہے پھر حملہ آور سویلین ہی کیوں نہ ہو۔ دلچسپ بات ہے کہ اس قانون میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کے تحت ممنوعہ مقامات پر داخل ہونے جیسے جرائم کا بھی ذکر ہے۔

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ فوجی کورٹس میں ان منصوبہ سازوں، اشتعال انگیزی کرنے والوں اور حملہ آوروں کیخلاف کارروائی ہوگی جنہوں نے 9 مئی کو آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت فوجی تنصیبات، عمارتوں اور یادگاروں وغیرہ پر حملے کیے تھے۔

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف کارروائی کیلئے دفاعی حکام کو وفاقی حکومت سے کسی طرح کی اجازت یا منظوری کی ضرورت نہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت قائم موجودہ ملٹری کورٹس ملک کے نظام عدلیہ کا حصہ ہیں، کئی سویلین ملزمان کیخلاف اسی ایکٹ کی خلاف ورزی کی وجہ سے ان عدالتوں میں کارروائی کی گئی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی میں ایسے لوگوں کیخلاف کارروائی کا ذکر ہے جو دفاعی فورسز کا حصہ نہیں۔ یہ سیکشن انتہائی مفصل ہے لیکن ظاہر کرتا ہے کہ ایسے لوگ جن کیخلاف بصورت دیگر اس ایکٹ کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی ان کیخلاف بھی ایسے جرائم کی پاداش میں کارروائی کی جا سکتی ہے جو دفاعی، اسلحہ، بحریہ، فوج یا فضائی فورس اسٹیبلشمنٹ یا اسٹیشن، بحری جہاز یا ایئر کرافٹ یا بحری، بری یا فضائی فوج کے امور سے متعلق ہو، یا ایسا کوئی جرم ہو جو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا گیا ہو۔

اسی ایکٹ میں فوجی تنصیبات پر حملے کا بھی بتایا گیا ہے۔ آرمی ایکٹ کے اسی پیرا میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے جرائم کا ذکر بھی شامل ہے۔ آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923ء کو پڑھیں تو اس میں مختلف طرح کے جرائم کا ذکر ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی شخص کسی بھی ریاست کے تحفظ یا مفادات کے خلاف کسی بھی مقصد کیلئے ممنوعہ مقام کے قریب آتا ہے، معائنہ کرتا ہے، گزرتا ہے یا اس کے آس پاس موجود ہوتا ہے، یا اس میں داخل ہوتا ہے تو وہ شخص اس قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔

ایسے مجرم کو 14 سال تک کی قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے آرمی چیف کی زیر قیادت کور کمانڈز کی خصوصی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا، فیصلہ کیا گیا تھا کہ جو لوگ 9 مئی کو فوجی تنصیبات، اہلکاروں اور سامان پر حملوں میں ملوث تھے ان کیخلاف پاک فوج کے متعلقہ قوانین بشمول آرمی ایکٹ اور سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کیخلاف آرمی ایکٹ اور سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کے اعلان کے بعد میڈیا اور سیاسی حلقوں میں ایسے فیصلے کے جائز ہونے کے حوالے سے بحث و مباحثہ شروع ہوگیا تھا۔ کچھ لوگوں کی دلیل تھی کہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی، کچھ لوگوں نے آرمی ایکٹ کو ماضی میں ملٹری کورٹس کی کسی قانون سازی کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا تھا۔

مزید خبریں :