29 مئی ، 2023
تحریک انصاف کے بڑے بڑے رہنما عمران خان کو چھوڑتے جا رہے ہیں اور جاتے جاتے سب فوج سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ ضرور یاد دلا رہے ہیں کہ جو کچھ 9مئی کو ہوا وہ ناقابل قبول ہے، ناقابل برداشت ہے۔
تحریک انصاف کو چھوڑنے والے ایسے رہنمابھی ہیں جن کو یہ کہتے سنا گیا کہ وہ عمران خان کو پچھلے کچھ عرصہ سے یہ تنبیہ کرتے رہے کہ اُن کا فوج مخالف بیانیہ خطرناک ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان کے اردگرد ایک گروہ نے فوج کے خلاف اُن کے کان بھرے اور یوں دنیا نے 9مئی کو وہ کچھ دیکھا جس کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
میں حیران ہوں کہ یہ رہنما اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے، یہ باتیں کتنی آسانی سے کر کے سارا ملبہ عمران خان پر ڈال کر ایک طرف ہو رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے بڑا قصور عمران خان کا ہے، جنہوں نے گزشتہ ایک سال سے ایک ایسا بیانیہ بنایا جس کے سنگین نتائج کے بارے میں ایک عام شخص بھی اندازہ کر سکتا تھا۔ چاہے مشورہ دینے والے کوئی بھی ہوں ذمہ داری لیڈر کی ہی بنتی ہے اور اسیلئے عمران خان کو 9 مئی کے حوالے سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔
بہرحال سوال اُن سے بھی ضروربنتا ہے جو عمران خان کے اردگرد رہے، جن کا شمار تحریک انصاف کے رہنمائوں میں ہوتا تھا کہ وہ عمران خان کی فوج مخالف پالیسی کے خلاف پہلے کیوں نہ بولے، خان کو اس خطرناک رستےپر چلنے سے کیوں نہ روکا۔ اُس وقت یہ سب کیوں خاموش رہے جب فوج اور فوجی قیادت پر سنگین الزامات لگائے جا رہے تھے، اُن کو غدار، میر جعفر اور میر صادق کے طعنے دیے جا رہے تھے۔ بلکہ عمران خان کو چھوڑنے والے بہت سے رہنما تو کسی نہ کسی انداز میں عمران خان کے بیانیہ کو ہی آگے بڑھا رہے تھے۔ کئی ایسے فراد ضرور تھے جو اپنی پرائیویٹ گفتگو میں یہ تسلیم کرتے تھے کہ عمران خان خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں لیکن وہ بولتے اس لئے نہیں تھے کہ اُن کو اپنے سیاسی مفادات زیادہ عزیر تھے، وہ عمران خان کے نام پر ووٹ لے کر الیکشن جیتنا چاہتے تھے۔
اب جب فوج مخالف بیانیہ نے 9 مئی کا بھیانک دن اس ملک کو دکھا دیا تووہ سب ایک ایک کر کے عمران خان کو چھوڑرہے ہیں اور جو کچھ اُنہیں عمران خان سےپہلے کہنا چاہئے تھا اب راہیں جدا کرتے وقت کہہ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی ایک خاتون رہنما ،جو عمران خان کے بہت قریب تھیں ،نے پارٹی چھوڑتے وقت کہا کہ کاش اُن کی زندگی میں 9 مئی کا دن نہ آتا اور کاش ایسا ممکن ہو کہ وہ اس دن کو اپنی زندگی سے نکال سکیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کاش عمران خان کی ہاں میں ہاں ملانے والے وقت پر عمران خان کو روکتے، اگر روک نہیں سکتے تھے تو پہلےہی اُن کو چھوڑدیتے۔
ایسا تو صرف فیصل واوڈا نے کیا اور وقت پر دنیا کے سامنے بول اُٹھے کہ عمران خان غلط رستے پرچل رہے ہیں۔ مجھ سمیت میڈیا کے کئی لوگ عمران خان اور تحریک انصاف کو خبردار کرتے رہے کہ فوج مخالف بیانیہ پاکستان اور پاکستانی فوج کے ساتھ ساتھ عمران خان اور اُن کی سیاست کیلئے بھی انتہائی خطرناک ہو گا اورایسا ہی ہوا۔ کئی رہنما تحریک انصاف کو خیرباد کہتےوقت روتے دکھائی دیئے۔ یہ لوگ وقت پر اپنی ذمہ داری پوری کرتے تو اب دنیا کے سامنے انہیں رونا نہ پڑتا۔ اب لگتا ہے کہ عمران خان کو بھی کچھ کچھ سمجھ آنے لگی ہے لیکن اُنہیں دیر بہت ہوچکی ہے۔ اُنہیں شاید محسوس ہو رہا ہے کہ اُن کا سیاسی مستقبل ختم ہو سکتا ہے۔
اب وہ نہ صرف یہ بات کر رہے ہیں کہ اُن کی نااہلی کی صورت میں کون تحریک انصاف کی قیادت کرے گا بلکہ اپنی جماعت کے مستقبل کے لیڈر کے طور پر اُنہوں نے مُراد سعید کا نام بھی لے دیا ہے۔ اب وہ مذاکرات کیلئے بھی بے تاب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ فوری مذاکرات کئے جائیں۔ خان صاحب نے سات ممبرز پر مشتمل ایک کمیٹی بھی مذاکرات کیلئے تشکیل دے دی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس وقت کوئی تحریک انصاف سے مذاکرات کیلئے بات کرے گا۔ابھی 9 مئی کا زخم تازہ ہے اور ویسے بھی عمران خان کے مخالف چاہیں گے کہ تحریک انصاف کی موجودہ توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری رہے اور جتنا سیاسی نقصان عمران خان کا ہو سکتا ہے وہ ہو جائے۔
تحریک انصاف کے ووٹرز اورسپورٹرز کی اکثریت بہت مایوس ہے جبکہ کئی افراد نے یہ امید اب بھی لگا رکھی ہے کہ عمران خان کوئی بڑا سرپرائز دے کے سب کچھ اپنے حق میں کرلیں گے۔ معلوم نہیں کہ عمران خان اپنا سیاسی مستقبل کیسے secure کر سکتے ہیں لیکن جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے تحریک انصاف کے مایوس کارکنوں کو جماعت اسلامی میں شامل ہونے کی دعوت دے دی ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کے مایوس کارکن ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرف کبھی نہیں جائیں گے۔ سب کی نظریں تحریک انصاف اور عمران خان کے سیاسی مستقبل پر ہیں۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے!!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔