کاشغر میں پاک چین دوستی زندہ باد کے نعرے

اس وقت دکان پر جو 3 بھائی کام کر رہے تھے ان کی سات نسلیں سنکیانگ کے مشہور نان بنانے کے کام سے وابستہ رہیں— فوٹو: راقم الحروف
اس وقت دکان پر جو 3 بھائی کام کر رہے تھے ان کی سات نسلیں سنکیانگ کے مشہور نان بنانے کے کام سے وابستہ رہیں— فوٹو: راقم الحروف

مئی کے 2023 کے آغاز میں مجھے بیجنگ سے چین کے شہر کاشغر جانے کا اتفاق ہوا۔بیجنگ آئے ہوئے 8 ماہ کے قریب عرصہ بیت چکا تھا اور اس دوران چین اور بیجنگ کے بارے میں جاننے کا بہت موقع ملا لیکن میں بیجنگ شہر سے باہر اب تک نہیں گیا تھا اس لیے ایک تجسس کا احساس ضرور تھا کہ کاشغر کیسا ہوگا؟

چین آنے سے پہلے اور آنے کے بعد بھی کاشغر شہر کا نام کئی بار سن چکا تھا۔ میرے لیے صرف یہ جاننا بھی کافی تھا کہ کاشغر شہر کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے۔ سو خیال یہی تھا کہ اس شہر میں عمارتیں، سڑکیں، بازار اور  رہن سہن سمیت یہاں کے لوگوں کے رویے بھی اس تاریخ سے ضرور متاثر ہوں گے اور انہیں جاننے کا موقع بھی ملے گا لیکن ایک بات اور تھی جس کا تذکرہ میرے سب ساتھیوں اور دوستوں نے کیا ، اور وہ یہ آگاہی تھی کہ چونکہ کاشغر شہر ، بیجنگ کی نسبت پاکستان سے قریب ہے تو یہاں کے کھانوں کے علاوہ کئی اور چیزیں مجھے پاکستان جیسی ملیں گی۔

اس سفر کی مکمل داستان پھر کبھی سہی لیکن آج اس تحریر میں پاک چین دوستی کے گہرے اور پر خلوص جذبات پر مبنی ملاقاتوں کے سلسلوں کا تذکرہ کروں گا جس نے واقعی احسااس دلایا کہ یہ دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہے۔

قدیم کاشغر شہر کے بازار کی ایک خاص بات یہاں خاص پتھروں اور لکڑی سے بنی پہننے اور آرائش کی اشیاء ہیں۔ ان ہی دکانوں سے گزرتے ہوئے میں نے اپنے لیے ایک آواز سنی۔"اندار آجائیں، یہاں بہت اچھی چیزیں ہیں۔‘‘

میں نے حیران ہو کر اس جانب دیکھا جہاں سے آواز دی گئی تھی تو ایک 45 سے 50 سالہ خوش شکل چینی دکاندار مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ مسکراہٹ واقعی ایسا تحفہ ہے جو آپ بغیر کچھ سوچے فوراً قبول کر لیتے ہیں اور یہ ایک نئے تعلق کو بھی پرانے تعلق کا جامہ پہنا دیتا ہے۔ خیر، میں آگے بڑھا اور قریب جا کر سلام کرنے کے بعد گرمجوشی سے پوچھا کہ اتنی اچھی اردو کیسے بول لیتے ہیں؟جس کے جواب میں دکاندار نے کہا کہ بچپن سے پاکستان آنا جانا ہے اس لیے اردو آگئی ہے۔

مسکراہٹوں کا ایک اور تبادلہ ہوا اور پھر کافی طویل گپ شپ بھی ہوئی۔ میں نے مختار نامی اس دکاندار کی دکان کا معائنہ بھی کیا اور اس کی اشیاء کی تعریف بھی۔ مختار نے بتایا کہ وہ خنجراب کے راستے پاکستان جاتے ہیں اور سالوں سے پاکستانی سامان کاشغر لا رہے ہیں اور چینی سامان پاکستان لے جا رہے ہیں۔ اس خوب صورت ملاقات کا اختتام ایک سیلفی اور پاک چین دوستی زندہ باد کے نعرے پر ہوا لیکن میں کافی دیر تک مختار کی مسکراہٹ کا خلوص اپنے دل میں محسوس کرتا رہا۔

قدیم کا شغر شہر ہی میں ایک گلی یا آپ اسے علاقہ کہہ لیں، بہت مشہور ہے۔ اس کا نام گیسٹ ہاؤس اسٹریٹ ہے۔ قدیم شہر کے پرانے مکانات کی تعمیر نو کے بعد انہیں گیسٹ ہاؤس میں منتقل کر نے والے اس علاقے میں ہر گھر اپنی انفرادیت اور سجاوٹ کے اعتبار سے منفرد ہے۔ یہاں کے دروازے، صحن،کھڑکیاں ،چھتیں اور بیرونی دیوار ایک منفرد احساس،  اور خاص کر  پودوں،بیلوں اور پھولوں سے مزین ہیں۔

میں ان ہی گلیوں میں گھومتا خود کو تاریخ کے اوراق پلٹتا محسوس کر رہا تھا کہ اچانک ایک مجمع نظر آیا۔ قریب جا کر دیکھا تو یہ ایک تندور تھا جس کے پاس کئی لوگ کھڑے سنکیانگ کے مشہور اور لذیذ نان بنتے دیکھ رہے تھے اور اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔

میں نے دوکان کا نام جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ دکان 7 نسلوں کے نان بائی خاندان کی ایک ہے، یعنی اس وقت دکان پر جو 3 بھائی کام کر رہے تھے ان کی سات نسلیں سنکیانگ کے مشہور نان بنانے کے کام سے وابستہ رہیں۔ میں نے ان سے اجازت لی اور کچھ آگے بڑھ کر ان کے نان بنانے کی ویڈیو اپنے موبائل سے بنانے لگا۔ اسی دوران انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کون سے ملک سے آئے ہیں؟ تو میں نے جواب میں پاکستان کہا۔ پاکستان کا نام سنتے ہی ان افراد کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ پھر پوچھنے لگے کتنے عرصے کے لیے آئے ہیں؟ تو میں بتایا کہ میں بس چند دن کا مہمان ہوں یہاں۔

یہ سنتے ہی انہوں نے تمام مجمع کو نظر انداز کیا اور جتنے نان اس وقت تیار تھے انہیں اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر مجھے تحفے کے طور پر پیش کیا۔ میں اس اچانک عمل پر ششدر رہ گیا اور ان سے درخواست کی کہ ایسا نہ کریں، لیکن وہ بضد رہے کہ آپ پاکستان سے آئے ہیں تو خالی ہاتھ نہیں جانے دیں گے۔ بہر حال ان کے شدید اصرار پر ہم کچھ ساتھیوں نے ایک نان کے چند ٹکڑے ان سے تحفے کے طور پر لیے اور یہاں بھی ملاقات کا اختتام پاک چین دوستی کے نعرے اور شکریہ پر ہوا۔

میں سوچنے لگا کہ میرے علاوہ بھی وہاں مختلف ممالک کے کئی سیاح موجود تھے لیکن ان کے حصے میں یہ گرمجوشی اور محبت نہیں آئی جو میرے حصے میں آئی جس کی وجہ صرف چین پاکستان دوستی کی قدیم تاریخ اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان پر خلوص تعلق ہے جس کی مثال شاید دنیا بھر میں نہیں ملتی۔

کاشغر کے جدید شہر میں ایک رات اسٹریٹ فوڈ کھانے کے شوق میں ہوٹل کے قریب ایک سڑک پر چکن بار بی کیو دیکھتے ہوئے ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اسے چکھا جائے یا نہیں کہ اتنی دیر میں خاتون دکاندار نے میرے چہرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ، "پاکستان؟" میں نے کہا ہاں، اور پھر ایک زور دار قہقہہ بلند ہوا اور صدا  آئی پاک چین دوستی زندہ باد۔ پھر وہی روایتی مہمان نوازی کے اب آپ پاکستان سے آئے ہیں تو کچھ نا کچھ ضرور چکھیں۔ میں اس مہمان نوازی پر احسان مند بھی تھا اور یہ بھی سوچ رہا تھا کہ دو ممالک کی اس قدیم دوستی نے دونوں ممالک کے عوام کو اس حد تک قریب کر دیا ہے کہ محبت اور خلوص کے لیے اب زبان سے کچھ کہنا بھی نہیں پڑتا اور چہرے شناسائی کا حال کہہ دیتے ہیں۔

یہ تعلق ایک دو دنوں کی بات نہیں۔ اسے سالوں لگے ہیں۔کئی سرد اور گرم موسم اس دوستی نے جھیلے ہیں تب جا کر دونوں ممالک کی پر خلوص دوستی کا اثر عوام تک پہنچا ہے۔دعا ہے کہ اس بے مثال دوستی کو کسی کی نظر نہ لگے اور دونوں ملک اور اس کے عوام ہمیشہ دوستی اور محبت کے اسی شجر سایہ دار میں رہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔