فیکٹ چیک : کیا پاکستانی حکام آرمی سیکرٹ ایکٹ کے تحت واٹس ایپ چیٹس کی نگرانی کر رہے ہیں؟

پاکستان میں آرمی سیکرٹ ایکٹ نام کا کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کوئی قانون ملک میں موجود ہے جو واٹس ایپ گروپس کی نگرانی کی اجازت دیتا ہو۔

فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ پر گردش کرنے والے ایک میسیج میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان نے ایک نیا قانون نافذ کیا ہے جسے آرمی سیکرٹ ایکٹ کہا جاتا ہے جس کے تحت پاکستانی فوج  پر  تنقید کرنے والے پیغامات پر شہریوں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے ۔

یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔

دعویٰ

گز شتہ ماہ واٹس ایپ گروپس میں بھیجے جانے والے ایک میسیج میں یہ لکھا گیا تھا کہ ”تمام گروپ ایڈمنز اور ممبران کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آرمی سیکرٹ ایکٹ (Army Secret Act) 17مئی سے نافذ ہو چکا ہے۔“

میسیج میں مزید کہا گیا کہ اب سے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں پاکستان بھر میں واٹس ایپ گروپس کی نگرانی کریں گی اور جو بھی فوج یا حکومتی اداروں پر تنقید کرتا ہوا پایا جائے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

اس پیغام میں واٹس ایپ گروپس کے ایڈمنز کو مزید ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے گروپ ممبران کا ریکارڈمحفوظ رکھیں اورکسی بھی ایسے شخص کی اطلاع، جو پاکستانی اداروں یا پاکستان کے خلاف ہو،  فوری طور پر قریبی پولیس اسٹیشن یا خفیہ ایجنسی کے نمائندے کو دیں۔

فیس بک اور ٹوئٹر پربھی ایک جیسی تحریریں شیئر کی گئیں۔


حقیقت

تین وکلا نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ پاکستان میں آرمی سیکرٹ ایکٹ جیسا کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ہی ملک میں ایساکوئی قانون موجود ہے جو واٹس ایپ گروپس کی نگرانی کی اجازت دیتا ہو۔

لاہورسے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے نامور وکیل اسد جمال نے ٹیلی فون پر جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ”نہیں، آرمی سیکرٹ ایکٹ کوئی نہیں ہے۔“

ان کا مزید کہنا تھا کہ2  قانون ہیں جنہیں آفیشل سیکرٹس ایکٹ1923ء اور پاکستان آرمی ایکٹ1952ء کہا جاتا ہے۔

آفیشل سیکرٹس ایکٹ1923ءجاسوسی سے متعلق قانون ہے جبکہ آرمی ایکٹ1952ء فوجی اہلکاروں اور کچھ معاملات میں عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی اجازت دیتا ہے۔

اسد جمال نے اس بات کی بھی تصدیق کی مذکورہ قوانین میں سے کوئی بھی قانون اتھارٹیز کو نجی واٹس ایپ چیٹس کی نگرانی کی اجازت نہیں دیتا۔

تاہم  انہوں نے مزید کہا کہ انویسٹی گیشن فار فیئر ٹرائل ایکٹ 2013ء موجود ہے جس کے تحت کسی شخص کے فون کو ٹیپ کرنے کے لیے ایک مناسب وجہ پیش کرنا اور عدالت سے اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔

اسد جمال کا کہنا تھا کہ” عدالت سے اجازت ملے گی تو قانونی راستہ کھلے گا، ورنہ جتنی مانیٹرنگ ہوتی ہے، سرویلینس[نگرانی] ہوتی ہے، ریکارڈنگ ہوتی ہے، سب غیر قانونی ہے۔“

ایک وکیل اور ڈیجیٹل رائٹس ایکٹوسٹ نگہت داد نے بھی اس دعویٰ کی تردید کی ہےکہ پاکستان میں آرمی سیکرٹ ایکٹ کے نام سے ایک نیا قانون نافذ کیا جا رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ”واٹس ایپ گروپس مانیٹر کئے نہیں جا سکتے،ٹیکنالوجی کے اپنے ڈیزائن کی وجہ سے، کیونکہ وہ اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ (end-to-end encrypted)ہوتے ہیں، اگر کوئی ایسی ٹیکنالوجی آپ کی اتھارٹی کے پاس ہے جس میں وہ واٹس ایپ کو مانیٹر کر سکتے ہیں تب بھی ایسا کوئی خاص قانون نہیں ہے جو انہیں ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہو۔“

لاہور سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور وکیل اور پبلک پالیسی کے ماہر اسامہ خاور گھمن نے بھی واٹس ایپ پر آرمی سیکرٹ ایکٹ کے بارے میں گردش کرنے والی جھوٹی خبروں کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ لوگ اسے پرانے قوانین جیسا کہ آفیشل سیکرٹس ایکٹ1923 ء اور پاکستان آرمی ایکٹ1952ء کے ساتھ گڈمڈ کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ، جیو فیکٹ چیک نے آفیشل سیکرٹس ایکٹ1923 ء بغور پڑھااور اسے ایسی کوئی دفعات نہیں ملیں جو حکام کو واٹس ایپ گروپس کی نگرانی کرنے یا گروپ ممبران سے پلیٹ فارم پر ہونے والی نجی گفتگو کا ریکارڈ طلب کرنے کی اجازت دیتی ہوں۔

اس قانون کی کاپی وزارت قانون کی ویب سائٹ پربھی موجود ہے۔

جہاں تک آرمی ایکٹ 1952 ءکا تعلق ہےتو جیو فیکٹ چیک نے ایکٹ کی تازہ ترین کاپی حاصل کرنے کی کوشش کی جس پر وزارت قانون کے ایک اہلکار نے کہا کہ اس قانون کو 2017 ءکے بعد سے اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔