Time 08 جون ، 2023
پاکستان

لوگ ڈالر اور سونے میں اپنی رقم محفوظ نہ کریں، اس کا فائدہ نہیں ہو گا: اسحاق ڈار

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اقتصادی سروے 24-2023 جاری کردیا جس کے تحت رواں مالی سال معاشی ترقی کی شرح 0.29 فیصد رہی۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے تمام قرض وقت پر ادا کیے، درآمدات میں غذائی اشیاء اور ادویات کو ترجیح دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی سے تمام مسائل پیدا ہوتے ہیں، مہنگائی بڑھتی ہے، برآمدات نہیں بڑھتیں، میں جب آیا تو ڈالر کی اصل قیمت 200 روپے سے کم تھی، آج بھی ڈالر کی قیمت میں 40 سے 45 روپے کمی ممکن ہے۔

اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ لوگ ڈالر اور سونے میں اپنی رقم محفوظ نہ کریں، اس کا فائدہ نہیں ہو گا، روپے کی بے قدری سے مہنگائی ہوتی ہے اور شرح سود بڑھتی ہے،  جو کہتے ہیں اس سے برآمدات بڑھتی ہیں پتا نہیں وہ کون سی دنیا میں رہتے ہیں۔

ہماری کرنسی انڈر ویلیو ہے ، مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت اوپر ہے

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ لوگ گھبرائے ہوئے ہیں، مارکیٹ کا تاثر منفی ہے ، جب میں آیا تو کہا گیا کہ ڈالر 200 روپے کا ہوگا، اس وقت ڈالر کی قیمت حقیقی قیمت 197 روپے  تھی ، آج  بھی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ریئل ایکسچینج ریٹ 240 ہونا چاہیے، جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہےاس کی وجہ سے ڈالر 40 سے 45 روپے مہنگا ہے، ہماری کرنسی انڈر  ویلیو ہے ، مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت اوپر ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اپنی تمام ادائیگیاں بر وقت کرے گا، سخت معاشی پالیسی جاری رہیں گی، ہماری کوشش ہے کہ اسلامی بینکاری کو فروغ دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال جولائی تا مئی مہنگائی 29 فیصد رہی، ایف بی آر نے مشکل حالات کے باوجود اچھا کام کیا، اس سال مئی کے آخر تک ایف بی آر نے 6210 روپے کے ٹیکس محاصل جمع کیے، ایف بی آر مارچ کے آخر تک 9 لاکھ 12 ہزار نئے ٹیکس دہندہ سسٹم میں لایا۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دور میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ بڑھ گیا، گردشی قرضہ 1148 ارب سے بڑھ کر 4 سال میں 2467 ارب تک پہنچ گیا، ریونیو کا زیادہ حصہ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے، قرضوں کی ادائیگی کا حجم 2017 میں 1800 ارب سے کم تھا، 2022 میں بڑھ کر قرضوں کا یہ رقم 7 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا، پالیسی ریٹ بڑھنے سے قرضوں کا حجم آسمان پر چلا گیا۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت کو مشکل عالمی حالات کا بھی سامنا کرنا پڑا، سیلاب کی وجہ سے پاکستان نے بہت بڑا المیہ دیکھا، پاکستانی معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہوا، سیلاب سے جی ڈی پی کو  15.2 ارب ڈالر نقصان ہوا،  اس میں 14.9 ارب ڈالر کے دیگر نقصانات شامل ہیں، پاکستان کو سیلاب سے بحالی کیلئے 4 سال میں 16.3 ارب ڈالر درکار ہیں، جنیوا کانفرنس میں بہت اچھا رسپانس ملا۔

آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر اداروں سے70 کروڑ ڈالر ملنا باقی ہیں

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کیلئے بہت بھاری سیاسی قیمت ادا کی ہے، پاکستان کیلئے بہت مشکل فیصلے کیے گئے، پاکستان کی ساکھ ختم ہو چکی تھی،  اللہ کرے 9 واں اقتصادی جائزہ جلد مکمل ہو، آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر اداروں سے70 کروڑ ڈالر ملنا باقی ہیں، ہمیں بہت تکلیف دہ کام بھی کرنے پڑے، مانیٹری پالیسی کو منہگائی کی وجہ سے سخت کیا ہے، ہم اس دائرے میں پھنس چکے ہیں، منہگائی کی وجہ سے پالیسی ریٹ بڑھانا پڑتا ہے، لوگ گھبرائے ہوئے ہیں، مارکیٹ میں منفی تاثر ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج بھی ڈالر کا حقیقی ایکسچینج ریٹ 244 روپے ہے، آئی ایم ایف کا ڈرامہ لگا ہوا ہے، ایکسچینج ریٹ میں 40 سے 45 روپے کا گیپ ہے، ڈالر کا ریٹ بہتر ہوگا، ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کو نقصان ہوگا، ہماری کرنسی انڈر ویلیو ہے،بہتری کیلئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، ساڑھے 5 ارب ڈالر کا کمرشل قرضہ اور ایک ارب ڈالر کا بانڈ شامل ہے، بیرونی قرضوں میں ساڑھے 4 ارب ڈالر کمی آئی ہے، ہم تمام بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کریں گے،  کچھ لوگ باہر بیٹھ کر کہتے ہیں پاکستان ابھی تک ڈیفالٹ کیوں نہیں ہوا۔

روس، ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ شروع کر رہے ہیں، اسے دیگر ملکوں تک بھی وسعت دی جائے گی

اسحاق ڈار نے بتایا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کا بجٹ 360 سے بڑھا کر 400 ارب روپے کر چکے ہیں، رمضان پیکیج پر صوبوں سے مل کر 75 ارب خرچ کیے گئے، بی آئی ایس پی کے مستحقین کے وظیفہ میں 25 فیصد اضافہ کیا، 1750 ارب روپے کے  زرعی قرضے جاری کیے گئے،  روس، ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ شروع کر رہے ہیں، اسے دیگر ملکوں تک بھی وسعت دی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ اس سال جی ڈی پی گروتھ 0.29 فیصد رہی، یہ حقیقت پسندانہ اعداد و شمار ہیں، جولائی 2022 سے مئی 2023 اوسط مہنگائی 29.2 فیصد ریکارڈ ہوئی، قوزی مہنگائی (کور انفلیشن) کی اوسط شرح 18 فیصد ہے، روپے کی قدر میں کمی اور پالیسی ریٹ سے منفی اثرات مرتب ہوئے۔

نئے الیکشن کے بعد چارٹر آف اکانومی کو سنجیدہ لینا چاہیے

اسحاق ڈار کے مطابق 11 ماہ میں 6210 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا، گزشتہ مالی سال میں اسی مدت میں 5348 ارب جمع ہوئے تھے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پچھلے سال 13.7 ارب ڈالر تھا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اس سال کم ہو کر 3.3 ارب ڈالر پر آگیا ہے، درآمدات میں نمایاں کمی سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ نیچے آیا، اس حکومت نے بہت مشکل فیصلے کیے ہیں، تاریخ شہباز شریف کی حکومت کو یاد رکھے گی، سیاست پر ریاست کو ترجیح دی، ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا، اگلے سال جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 3.5 فیصد  ہے، نئے  الیکشن کے بعد چارٹر آف اکانومی کو سنجیدہ لینا چاہیے۔

کم سے کم اجرت کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں، ایسے فیصلے آخری گھنٹوں میں ہوتے ہیں

وزیر خزانہ نے کہا کہ کم سے کم اجرت کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں، ایسے فیصلے آخری گھنٹوں میں ہوتے ہیں، کل کابینہ اجلاس میں کم سے کم اجرت کا فیصلہ کریں گے، کوئی سبسڈی نہیں دے رہے، بجٹ میں کوئی ایسی بات نہیں جو متنازع ہو، معیشت بہتر نہ ہونے کی ایک وجہ سیاسی عدم استحکام بھی ہے،  سیاسی عدم استحکام ملک کا بڑا مسئلہ  ہے، بلومبرگ نے بھی 2019 میں اس پر لکھا، جب سابق وزیرخزانہ آئی ایم ایف پروگرام ختم کرنے کی بات کرے تو کیا کہہ سکتے ہیں، معیشت پر سیاست نہیں ہونی  چاہیے۔

مزید خبریں :