بلاگ

طاقت بمقابلہ سیاست

فوج کے پاس طاقت جبکہ عمران خان کے پاس سیاست، جیت کس کی؟ موجودہ سیاسی بحران 1971 سے زیادہ گمبھیر، روح فرسا نتائج دینے کو۔ آئین پاکستان دبدبہ کیساتھ نافذ، بحران کا حل آئین میں نہ ہی ماورائے آئین اقدامات میں۔

"جنرل عاصم منیر کے پاس اس کے علاوہ کوئی چوائس ہے نہیں کہ الیکشن سے اجتناب کریں اور اگلے چند سال وطنی استحکام یقینی بنائیں۔ عمران خان کو سہولت، وہ اپنی بے پناہ مقبولیت کو اپنی عافیت اور سلامتی جان چُکے جبکہ اسٹیبلشمنٹ کا غیر ضروری اعتماد کہ عمران خان کو وہ ٹھکانے لگانے کے قریب ہے۔ میرے نزدیک دونوں تصورات ادھورے، وطن عزیز کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہونگے" (پچھلے کالم کا آخری پیرا)۔ یہیں سے بات آگے بڑھاؤں گا کہ ممکنہ حل ڈھونڈنا ہے۔ فارمیشن کمانڈرز میٹنگ کےبعد آرمی چیف کا پالیسی بیان سامنے،آنیوالےدنوں میں بہت کچھ کر گزرنے کا عزم جتلایا۔

 درحقیقت شدید ردعمل آنے کو ہے۔ سانحہ 9 مئی پاکستان کی چولیں ہلا گیا، مداوا ممکن نہیں۔ واقعہ کا ذمہ دار اکلوتا عمران خان ہے۔ ایک سال سے جس تندہی سے عمران نے اپنی تقاریر، انٹرویوز، بیانات، جلسے جلوس، سوشل میڈیا، ٹویٹر، یوٹیوب غرضیکہ ابلاغ عامہ کا ہر ذریعہ استعمال میں، حتی المقدور، اپنے ماننے چاہنے والوں کو افواج پاکستان کیخلاف اُکسایا اور بھڑکایا۔ عسکری قیادت کیخلاف نفرت کے بیج بوئے۔ 9مئی کا سانحہ عمران خان کی ایک سالہ مہم جوئی کا منطقی نتیجہ ہی تو تھا۔

تاریخِ انسانی میں بے شُمار لیڈر ایسے، اپنی سحر انگیز تقاریر یا غیر معمولی چرب زبانی سے قوموں کے جذبات بَر انگیختہ رکھے۔ طارق بن زیاد، مصطفی کمال اتا تُرک، مارٹن لوتھر کنگ وغیرہ وغیرہ ایک ایک کی تقریر نے تقدیر بدل ڈالی۔ بد قسمتی سے ایسے بھی جن کی چرب زُبانی تباہی و بربادی دے گئی۔ حسن الصباح، مسولینی، ہٹلر، شیخ مجیب الرحمان، الطاف حسین، عمران خان وغیرہ۔

عمران خان دو آتشہ، چرب زُبانی کیساتھ غیر معمولی جارحانہ طرزِ سیاست اور پھر جدید میڈیا ملا تو مقبولیت نے ساتویں آسمان کو چُھو لیا۔ وطنی سیاست بلا شرکت غیرے عمران کے قبضہ استبداد میں آ گئی۔ کئی عوامل اور بھی موجود، دُہرانے کی ضرورت نہیں۔ بالآخر سانحہ 9 مئی، ریاست پر قیامت ڈھا گیا۔ جنرل عاصم منیر کو کریڈٹ کہ اعصاب قابو میں ر کھے، اندھا دھند ردِ عمل نہیں آیا۔ ایسے رویہ میں کچھ سود و زیاں بھی، تحریک انصاف کے رینکس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ ضرب کاری رہی، عمران خان چھا چُکے ہیں۔

طاقت جلد سرنگوں ہونے کو ہے۔ 9مئی کےبعدکی مزید حماقتیں اسی زمرے میں تھیں۔ آرمی چیف نےاگلے دو ہفتے قرب و جوار تا دور دراز ،جہاں جہاں ٹروپس موجود، ہنگامی دورے کئے، اُن کےحوصلے بڑھائے۔ ساتھ ساتھ اپنے لائحہ عمل کو ترتیب دیتے رہے۔ کل کی میٹنگ میں اپنے جامع لائحہ عمل کا اعلان کر دیا۔

 واشگاف الفاظ میں سانحہ 9 مئی کے پلانرز، سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم صمیم بتلایا۔ الفاظ کا چناؤ سخت، پیغام غصہ سے لبالب۔ واضح طور پر پیغام صرف اور صرف عمران خان کیلئے تھا۔ یقین تھا کہ سانحہ کا اکلوتا ذمہ دار عمران خان بچ نہ پائے گا۔طاقت بمقابلہ سیاست گھمسان کارن پڑ چُکا ہے۔

 طاقت کا بخوبی اندازہ ہے اور استعمال بھی جائز ہے۔ پلک جھپکتے فتح طاقت کی ہی رہنی ہے۔ اگرچہ سیاست کی ہار یقینی ہے، تعین کرنا مشکل کہ عمران خان کی 8 مئی کی سیاست آج 8 جون کو کہاں کھڑی ہے؟ رائے حتمی کہ تھوڑے بہت "اگر مگر، چونکہ چنانچہ" کیساتھ وطنِ عزیز کی سیاست کا اکلوتا محور آج عمران خان ہی ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی جماعتوں کی سیاست ختم ہو گئی ہے، ہر گز نہیں۔ پچھلے 15 مہینے تسلسل سے عمران خان کی مہم کا سیاسی ہدف عسکری قیادت رہی ہے ۔جبکہ باقی سیاسی جماعتیں اس لڑائی میں گنتی سے باہرہو چُکی تھیں۔ اس سے پہلے وطنِ عزیز میں شیخ مجیب الرحمان ، ذوالفقار علی بھٹو، الطاف حسین، نواز شریف جب تک اسٹیبلشمنٹ کے مد مقابل تھے، اُس وقت کی باقی سیاسی جماعتیں سیاسی دوڑ سے باہر تھیں۔ اسٹیبلشمنٹ حامی جماعتوں نے جب بھی سیاست استوار کی، اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ ہی پنپی۔ طاقت بمقابلہ سیاست، مقابلہ سخت، اگر عمران اپنی سیاست نہ بچا پائے تو حالات و واقعات ایک طرح کے اور اگر اپنی سیاست بچا گئے تو وطنی سیاسی منظرنامہ دوسری طرح کا ہو گا۔ سانحہ9 مئی کی نیرنگیاں، (BY DEFAULT)، آج ملکی نظم و نسق یا اہم امور حکومت عملاً اسٹیبلشمنٹ کو منتقل ہو چُکے۔ مارشل لائی دور سے ملتے جلتے حالات کا سامنا ہے۔

ماضی میں سیاست جب جنرل ایوب کے زیر سایہ استوار ہوئی، کنونشن لیگ وجود میں آئی، حامی سیاسی جماعتوں کو ایوب خان کی زیر قیادت کنونشن لیگ کی سیاست میں ضم ہونا پڑا۔ ضیا الحق دورنے من و عن تاریخ کو دہرایا۔ فنکشنل لیگ بنی، باقی جماعتیں بشمول بھٹو پارٹی کے سر کردہ رہنما سارے ضیا الحق کی سر پرستی میں رہے، بالآخر ضیا الحق کیساتھ خرچ ہو گئے۔ البتہ 1993میں نواز شریف نے اپنی سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے نکال لیا، بچ گئے۔ مشرف دور میں ق لیگ بنی، تمام حامی جماعتیں اور گروہ حصہ بنے۔ آج وطنی سیاست سے باہرہیں۔

میری محدود سوچ کے مطابق موجودہ اتحادی حکومت یا جہانگیر ترین کی استحکامِ پاکستان پارٹی سب "تیری سرکار" میں جب پہنچے تو بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ممد و معاون بنیں گے۔

شروع میں جیت طاقت کی ہی رہتی ہے۔ بالآخر سیاست جب انگڑائی لے گی تو اسٹیبلشمنٹ کی ساتھی جماعتوں کاخرچ ہو جانا مقدر بنے گا۔ عرض اتنی کہ تحریک انصاف کی SPACE یہ پارٹیاں نہیں لے پائیں گی۔ عمران خان کی آشیر باد ہی اُنکی سیاسی وراثت کا تعین کرے گی۔

شک نہیں کہ طاقت نے غالب آناہے کہ طاقت ہی ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کہ عمران خان دو ماہ بعد پردہ سیمیں پر نہیں ہونگے، قرین از حقیقت ہے۔ عمران خان کی سوچ کے تین ماہ بعد اسٹیبلشمنٹ کا رعب دبدبہ، دہشت ماند پڑ جائے گی اور اقتصادی زبوں حالی کی موجودگی میں اُنکی سیاست دوبارہ سر اُٹھائے گی، بات میں وزن ہے کہ ماضی میں بھی پہلے چند سالوں اندر سیاست مارشل لاؤں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا چُکی ہے۔ ہر موقع پر طاقت بمقابلہ سیاست،پاکستان پر کیا بیتی ؟ ناقابل بیان موضوع ہے۔

کاش کوئی عمران خان کو سمجھا پاتا اُسکی"مقبول سیاست" محض دھوکہ اور فریب تھی۔ مقبولیت کا سراب موصوف کو پھانسی کے قرب و جوار میں لے آیا ہے۔ عمران خان کو فراخدلی سے اسٹیبلشمنٹ کے آگے سر نگوں ہونا ہو گا، اعتراف گناہ کے بعد فراخدلی سے معافی مانگنا ہو گی۔ اتحادی حکومت کے سیاسی نقصانات کا بھی ازالہ کرنا ہو گا۔ حل تینوں فریقین کی صلح میں ہے، میثاق ثلاثہ ہی ملک کو بچا سکتا ہے، اس کے علاوہ بربادی ہی بربادی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔