بلاگ
Time 15 جون ، 2023

کرنل شیر خان شہید کون تھے؟

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کو جی ٹی روڈ سے ملانے والی ایک سڑک کا نام کیپٹن کرنل شیر خان روڈ رکھا گیا ہے۔ صوابی میں کیپٹن کرنل شیر خان کے نام پر ایک کیڈٹ کالج بھی ہے اور اس نام پر ملک کے دیگر علاقوں میں بھی کچھ ٹائون، سڑکیں اور تعلیمی ادارے موجود ہیں۔

 سب جانتے ہیں کہ کیپٹن کرنل شیر خان نے 1999ء میں کارگل کے محاذ پر ایک معرکے میں ایسی شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کیا کہ دشمن بھی انہیں سلیوٹ کرنے پر مجبور ہو گیا اور کیپٹن کرنل شیر خان کو پاکستان کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر دیا گیا۔

 بہت کم لوگ کرنل شیر خان کو جانتے ہیں جن کے نام پر کیپٹن کرنل شیر خان کا نام رکھا گیا۔کیپٹن کرنل شیر خان 1999ء میں کارگل کے گلتری سیکٹر کے ایک پہاڑ پر داد ِشجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے اور کرنل شیر خان 1948ء میں پونچھ کے چھجہ پہاڑ پر شہید ہوئے۔

 ان دونوں شہیدوں میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے دونوں کشمیر کی آزادی کیلئے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ کیپٹن 5جولائی 1999ء اور کرنل شیر خان 9جولائی 1948ء کو شہید ہوئے۔ کیپٹن کرنل شیر خان کے دادا غالب خان کا تعلق خیبر پختونخواہ کے علاقے صوابی سے تھا اور وہ 1948ء کے جہاد کشمیر میں کرنل شیر خان کے ساتھ تھے ۔

 یکم جنوری 1970ء کو ان کے ہاں پوتے نے جنم لیا تو انہوں نے اس کا نام کرنل شیر خان رکھا تاکہ تحریک آزادی کشمیر کے ایک مجاہدکا نام ہمیشہ زندہ رہے۔کرنل شیر خان 22جون 1876ء کو آزاد کشمیر کے علاقے منگ میں پیدا ہوئے انہوں نے پونچھ اور سرینگر میں تعلیم حاصل کی اور 18سال کی عمر میں برطانوی فوج میں بھرتی ہو گئے۔1947ء میں وہ فوج سے ریٹائر ہو چکے تھے ان کی عمر 72سال تھی لیکن انہوں نے ڈوگرہ فوج کے خلاف مزاحمت کیلئے منگ میں بہت سے ریٹائرڈ فوجیوں کو اکٹھا کیا اور یکم اکتوبر 1947ء کو فائیو آزاد کشمیر رجمنٹ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے ڈوگرہ فوج کے خلاف مزاحمت شروع کی۔ انہوں نے اپنی جائیداد کو فروخت کیااور اس سے ملنے و الی رقم اسلحہ خریدنے کےلئے استعمال کی۔وہ اپنے علاقے کے نوجوانوں کیلئے آزادی اور مزاحمت کا استعارہ بن چکے تھے اور منگ میں اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر خطاب کیا کرتے تھے جس پر ان کے دو بزرگوں ملی خان اور سبز علی خان کی لاشوں کو لٹکایا گیا تھا۔

1819ءمیں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج نے جموں و کشمیر پر حملہ کیا تو کشمیری مسلمانوں نے جگہ جگہ سکھوں کے خلاف مزاحمت شروع کر دی۔ سب سے بڑی بغاوت پونچھ اور مظفر آباد میں ہوئی ۔ مظفر آباد کے حکمران سلطان زبردست خان کا سید احمد شہیدؒ سے بھی رابطہ تھا۔ انہوں نے مظفرآباد سے بارہ مولا تک سکھ فوج پر حملے کئے ۔

1837ء میں انہوں نےسکھوں کے مقابلے پر اپنی آزاد حکومت کا اعلان کردیا۔ سکھوں نے اُنہیں دھوکے سے گرفتار کرکے سرینگر میں قید کر دیا۔ سلطان زبردست خان کے ساتھیوں نے بارہ مولا پر قبضہ کرکے سکھ فوج کو محصور کردیا تو زبردست خان کو رہا کر دیا گیا۔ پونچھ کے علاقے میں راجہ شمس خان ملایال نے بغاوت کی، اس بغاوت کو کچلنے کے لئے راجہ گلاب سنگھ نے پونچھ پر حملہ کر دیا۔

 راجہ گلاب سنگھ نے شمس خان ملایال کے دو ساتھیوں ملی خان اور سبز علی خان کو گرفتار کر لیا۔دونوں کی کھالیں اتروائیں اور ان میں بھوسہ بھر کے منگ کے ایک درخت پر لٹکا دیں۔ میں نے منگ میں یہ درخت خود بھی دیکھا ہے اور اسی درخت کے نیچے کھڑے ہو کر کرنل شیر خان کشمیری مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ڈوگرہ فوج نے ہمارے بزرگوں پر جوظلم کئے ان کا بدلہ لینے کا وقت آ چکا ہے۔ 

کرنل شیر خان کہا کرتے تھے کہ جس راجہ گلاب سنگھ نے ہمارے بزرگوں کی کھالیں اتروائیں اسی راجہ گلاب سنگھ کو انگریزوں نے جموں و کشمیر فروخت کر دیا تھا لہٰذا اپنے وطن کو آزاد کرانے کا وقت آ چکا۔کرنل شیر خان نے منگ کے علاوہ ستوال اور چری کوٹ سمیت دیگر علاقوں سے بھی ڈوگرہ فوج کو نکالا۔ اسی زمانے میں پلندری کے علاقے میں کرنل شیر احمد خان بھی تحریک مزاحمت میں شامل تھے ۔ یہ شیر احمد خان بعد میں آزاد کشمیر کے صدر بھی بنے۔

 بعض اوقات ناموں کی مماثلث کی وجہ سے انہیں کرنل شیرخان سمجھ لیا جاتا ہے لیکن یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جس کرنل شیر خان کے نام پر کیپٹن کرنل شیر خان کا نام رکھا گیا وہ یکم رمضان المبارک کو 1948ء میں شہید ہوگئے تھے۔ کرنل شیر احمد خان بعد میں سیاست میں آ گئے لیکن کرنل شیر خان شہید کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔وہ 72سال کی عمر میں شہید ہوئے اور کیپٹن کرنل شیر خان 29سال کی عمر میں شہید ہوئے۔

ان دونوں شہداء کی کہانی دراصل یہ بتاتی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر قیام پاکستان سے ایک صدی قبل شروع ہو چکی تھی جب کرنل شیر خان کے بزرگوں کو شہید کرکے منگ کے ایک درخت سے لٹکایا گیاتھا۔ کرنل شیر خان نے اپنے بزرگوں کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے کشمیر کی آزادی کیلئے جان قربان کر دی۔ 

1827ء اور 1837ء کے درمیان جموں و کشمیر میں ہونے والی مزاحمت کی تاریخ کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ کشمیریوں کی تحریکِ آزادی 1947ء نہیں بلکہ 1827ء سے جاری ہے اور اس تحریک کا ایک اہم موڑ 13جولائی 1931ء کو آیا جب کشمیریوں نے ایک پختون نوجوان عبدالقدیر کی رہائی کیلئے سرینگر میں مظاہرہ کیا اور مظاہرین پر گولیاں چلا دی گئیں۔

کیپٹن کرنل شیر خان کے نام سے موسوم کی جانے والی سڑکیں اور عمارتیں ہمیں صرف کرنل شیر خان کی یاد نہیں دلاتیں بلکہ ان سب شہداء کی یاد دلاتی ہیں جن کیلئے پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری نے کہا تھا۔

سرخ پھولوں سے زمیں کشمیر کی ہے سرخ رو

لالہ بن کر پھوٹ نکلا ہے شہیدوں کا لہو

چھوٹے چھوٹے ڈھیر مٹی کے قطار اندر قطار

راہ آزادی میں لڑنے والے شہدا کے مزار

لالہ رو یہ تربتیں یہ سینہ ہائے داغ داغ

ہم نے اپنے خون سے روشن کئے ہیں یہ چراغ

سرفروشو! ان چراغوں سے ضیا لیتے ہوئے

آگے اور آگے بڑھو! نام خدا لیتے ہوئے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔