Time 22 جون ، 2023
دنیا

زیر آب پھنس جانے والی آبدوز پائسز تھری کی 50 سال پرانی ڈرامائی کہانی

آج سے پچاس برس پہلے دو برطانوی سیلرزایک حادثے کے سبب آئرلینڈ سے 150 میل دور گہرے سمندروں میں غائب ہوگئے تھے— فوٹو: فائل
آج سے پچاس برس پہلے دو برطانوی سیلرزایک حادثے کے سبب آئرلینڈ سے 150 میل دور گہرے سمندروں میں غائب ہوگئے تھے— فوٹو: فائل

آج سے 50 سال قبل سب سے بڑی ہیڈ لائن بننے والی یہ کہانی آئرلینڈ کے قریب گہرے سمندر میں  ایک آبدوز میں پھنسے دو سیلرز کی کہانی ہے جنہیں 76 گھنٹے طویل اور مشکل ریسکیو آپریشن کے بعد زندہ نکال لیا گیا تھا لیکن آج یہ کہانی کسی کو یاد نہیں۔

آئیے ہم آپ کو یہ کہانی سناتے ہیں۔ آج سے پچاس برس پہلے دو برطانوی سیلرز 28 سالہ روجر چیمپمن، اور انجنئیر روجر میلنسن ایک حادثے کے سبب آئرلینڈ سے 150 میل دور گہرے سمندروں میں غائب ہوگئے تھے۔

پچاس برس پہلے دو برطانوی سیلرز 28 سالہ روجر چیمپمن، اور انجنئیر روجر میلنسن ایک حادثے کے سبب آئرلینڈ سے 150 میل دور گہرے سمندروں میں غائب ہوگئے تھے— فوٹو: فائل
پچاس برس پہلے دو برطانوی سیلرز 28 سالہ روجر چیمپمن، اور انجنئیر روجر میلنسن ایک حادثے کے سبب آئرلینڈ سے 150 میل دور گہرے سمندروں میں غائب ہوگئے تھے— فوٹو: فائل

دونوں سیلرز اسٹیل سے بنی 6 فٹ ڈایامیٹر والی ایک بال نما آبدوز سمیت 16 سو فٹ گہرائی میں پھنسے ہوئے تھے۔ جب انہیں ریسکیو کیا گیا تب ان کے پاس صرف 12 منٹ کی آکسیجن باقی رہ گئی تھی۔

دونوں سیلرز کو جب انہیں ریسکیو کیا گیا تب ان کے پاس صرف 12 منٹ کی آکسیجن باقی رہ گئی تھی— فوٹو: فائل
دونوں سیلرز کو جب انہیں ریسکیو کیا گیا تب ان کے پاس صرف 12 منٹ کی آکسیجن باقی رہ گئی تھی— فوٹو: فائل

29 اگست 1973سیلرز کی ڈائیو

سینیئر پائلٹ روجر میلنسن اور پائلٹ روجر چیمپمن29 اگست1973 کو دوپہر1  بج کر 15 منٹ پر پوسٹ آفس کیلئے ٹیلیفون کیبل کی خرابی دور کرنے کیلئے کینیڈین ساختہ کمرشل آبدوزپائسز تھری میں سوار ہوکر کورک کے جنوب مغرب میں 150 میل دور سمندر کی تہہ میں اترے تھے۔

انہیں 16 سو فٹ گہرائی تک پہنچنے میں 40 منٹ لگنے تھے اور اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ  انہیں اوپر آنا تھا۔ وہ دونوں سمندر کی تہہ میں موجود کیبل پر کام کرنے کیلئے گئے ہوئے تھے۔

 ان کا کہنا تھا کہ ہمیں 8 گھنٹوں کی شفٹ میں کام کرنا تھا لیکن وہاں اندھیرے کے باعث مشکلات ہوئی اور کام بہت ہی تھکا دینے والا تھا، یہ بلکل ایسا  تھا جیسے گہری دھند میں کسی موٹروے پر ایک سفید لائن کا پیچھا کرتے ہوئے گاڑی چلائی جائے۔ انہیں ایک ہاتھ سے اپنی آبدوز کو سنبھالنا تھا اور دوسرے ہاتھ سے مینوپولیٹر (مصنوعی ہاتھ) جس سے انہیں کام کرنا تھا اسے کنٹرول کرنا تھا۔

سیلر میلنسن کیلئے یہ بنا سوئے ہوئے 26 گھنٹوں کا کام تھا، گزشتہ ڈائیو میں ان کے پاس موجود مصنوعی ہاتھ میں کچھ خرابی ہو گئی تھی، تو ایک دن اسے ٹھیک کرنے میں لگ گیا، میلنسن پائسز کو اچھی طرح سمجھتے تھے کیونکہ جب وہ کینیڈا سے ملبے کی شکل میں آئی تھی تب انہوں نے ہی اسے دوبارہ سے بنایا تھا۔

میلنسن کا کہنا تھا کہ خوش قسمتی سے انجنیئرز نے فیصلہ کیا تھا کہ پائسز کے آکسیجن ٹینک تبدیل کردیے جائیں، مجھے نہیں پتہ کیوں لیکن پھر  اس کے ٹینک مکمل تبدیل کیے گئے۔ اگر  ایسا نہ کیا ہوتا تو شاید ہم زندہ نہ ہوتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنی آبدوز کے اندر ہر 40 منٹ بعد وہ لیتھیم ہائیڈرو آکسائیڈ پنکھا چلا لیتے تھے جو خارج کی گئی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر لیتا تھا جس کے بعد وہ اپنی آبدوز کے اندر تھوڑی مقدار میں آکسیجن بھر لیتے تھے۔ دونوں اپنی ہر ڈائیو میں ویڈیو کمنٹری بھی ریکارڈ کرتے رہے تھے۔

دونوں سیلرز اسٹیل سے بنی 6 فٹ ڈایامیٹر والی ایک بال نما آبدوز سمیت 16 سوٹ فٹ گہرائی میں پھنسے ہوئے تھے— فوٹو: فائل
دونوں سیلرز اسٹیل سے بنی 6 فٹ ڈایامیٹر والی ایک بال نما آبدوز سمیت 16 سوٹ فٹ گہرائی میں پھنسے ہوئے تھے— فوٹو: فائل

آبدوز کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا؟

سیلرز کا کہنا تھا کہ 9 بج کر 18 منٹ تک پائسز تھری اپنا کام کر چکی تھی اور اب ہم منتظر تھے کہ ہمیں اوپر کھینچ لیا جائے لیکن اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ ہم تیزی سے مزید نیچے ڈوبنے لگے،اوپر کھینچنے والی رسی ٹوٹ گئی تھی، نیچے گہرائی میں جاتے ہوئے ہماری آبدوز الٹ گئی اور بڑی تیزی سے ڈوب رہی تھی۔

جب ہیچ کھینچا تو aft sphere جہاں مشینری ہوتی ہے وہ پانی سے بھر گیا اور اچانک ہماری آبدوز کئی ٹن بھاری ہوگئی۔ ڈوبتے وقت ہمارے ذہن میں صرف ایک ہی بات تھی کہ کیا ہم کانٹینینٹل شیلف سے ٹکرا جائیں گے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو آبدوز ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی۔

ایسی صورتحال میں دونوں سیلرز نے ایک دم سے تمام الیکٹریکل سسٹمز بند کردیے، انہوں نے آبدوز سے 181 کلوگرام وزن گرادیا تاکہ وہ کچھ ہلکی ہو جائے، نیچے ٹکرانے میں صرف 30 سیکنڈ رہ گئے تھے جب دونوں نے ڈیپتھ گیج کو 500 فٹ پر بند کردیا تھا۔ دونوں نے  اپنے منہ میں کپڑا ٹھونس لیا تاکہ نیچے ٹکرانے پر وہ اپنی زبان نہ کاٹ لیں۔

نیچے ٹکرانے میں صرف 30 سیکنڈ رہ گئے تھے جب دونوں نے ڈیپتھ گیج کو 500 فٹ پر بند کردیا تھا: سیلرز— فوٹو: فائل
نیچے ٹکرانے میں صرف 30 سیکنڈ رہ گئے تھے جب دونوں نے ڈیپتھ گیج کو 500 فٹ پر بند کردیا تھا: سیلرز— فوٹو: فائل

آبدوز کی سمندر کی تہہ سے ٹکر

سیلرز کا کہنا تھا کہ ان کی آبدوز 9:30 منٹ پر 1575 فٹ گھرائی میں سمندر کی تہہ سے جاکر ٹکرا گئی تھی۔ اس وقت ان کے ذہن میں سب سے پہلا خیال خوشی کا تھا کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں، انہیں کوئی زخم نہیں آئے تھے۔ لیکن بعد میں انہیں اندازہ  ہوا کہ وہ 40 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ڈوبتے ہوئے سمندر کی تہہ میں غائب ہو چکے تھے۔

سطح پر موجود ٹیم سے رابطے کی کوشش

پائسز تھری میں موجود دونوں سیلرز نے اوپر موجود اپنی ٹیم سے رابطے کی کوششیں کیں 9:45 منٹ پر انہوں نے پیغام بھیجا کہ وہ دونوں ٹھیک ہیں، ان کا مورال بلند ہے اور وہ دوبارہ سے آرگنائز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سب میرین میں کسی حادثے کی صورت میں 72 گھنٹوں کی آکسیجن موجود تھی، لیکن 8 گھنٹوں کی آکسیجن وہ پہلے ہی استعمال کر چکے تھے باقی 66 گھنٹوں کی آکسیجن پیچھے رہ گئی تھی۔

الٹی ہوئی آبدوز کو سیدھا کرنے کی کوششیں

آبدوز میں پھنسے دونوں سیلرز نے سب سے پہلے الٹی ہوئی آبدوز کو سیدھا کرنے کی کوششیں شروع کردی، اس عمل میں انہیں کچھ گھنٹے لگے، جس کے بعد انہوں نے تسلی کرنے کی کوشش کی کہ کوئی چیز لیک نہیں ہو رہی۔

انہوں نے سوچا کہ اگر ہم زیادہ حرکت کرتے ہیں اور آبدوز کو سوئچ آف رکھتے ہیں تو ایک چوتھائی آکسیجن استعمال کریں گے اس لیے آکسیجن بچانے کیلئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ زیادہ حرکت اور بات چیت نہیں کرنی۔

ریسکیو کیلئے امریکا سے کرو تھری (CURV III) آبدوز کو کیلی فورنیا سے روانہ کردیا گیا— فوٹو: فائل
ریسکیو کیلئے امریکا سے کرو تھری (CURV III) آبدوز کو کیلی فورنیا سے روانہ کردیا گیا— فوٹو: فائل

سطح سمندر پر سیلرز کیلئے ریسکیو کی کوششوں کا آغاز

سطح سمندر موجود ٹیم نے 10 بج کر 30 منٹ پر آبدوز سمیت گہرے سمندر میں پھنس جانے والے دونوں سیلرز کے ریسکیو کیلئے آپریشن کا آغاز کر دیا تھا، اس کام کیلئے ایک اور آبدوز پائسز ٹو کو قریبی پورٹ سے بلوا لیا گیا تھا۔

 رائل نیوی کے خصوصی جہاز  12 بج کر 9 منٹ تک وہاں پہنچ چکے تھے، امریکا سے کرو تھری (CURV III) آبدوز کو کیلی فورنیا سے روانہ کردیا گیا اور کینیڈین کوسٹ گارڈ شپ بھی ریسکیو کارروائیوں میں شامل ہونے کیلئے  بندرگاھ چھوڑ چکا تھا۔

8 بجے تک پائسز ٹو اور پائسز فائیو کو جہاز کے ذریعے جائے واقعہ پر پہنچا دیا گیا اور کورک سے 10:30 منٹ پر بحری جہاز بھی روانہ کردیا گیا تھا۔

نیچے آبدوز میں پھنسے دونوں سیلرز کے پاس کھانا ختم ہو چکا تھا، ان کے پاس صرف ایک چیز چٹنی سینڈوچ  اور لیمونڈے کا ایک کین بچا ہوا تھا تاہم دونوں کچھ بھی کھانے یا پینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔

دونوں سیلرز کا کہنا تھا کہ انہوں نے آبدوز کے اندر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بڑھنے دیا تا کہ محدود آکسیجن میں سانس لیتے رہے، انہوں نے ہر چالیس منٹ کا پتہ چلانے کیلئے ٹائمر لگادیے تھے، اب انہوں نے اپنے خاندان کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا۔

اچانک ایک بحری جہاز کوئین الزبتھ سے دونوں سیلرز کو ایک پیغام موصول ہوا انہوں نے دونوں سے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے جلد ریکوری کی امید دلائی۔

سیلرز  نے آبدوز کے اندر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بڑھنے دیا تا کہ محدود آکسیجن میں سانس لیتے رہے— فوٹو: فائل
سیلرز  نے آبدوز کے اندر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بڑھنے دیا تا کہ محدود آکسیجن میں سانس لیتے رہے— فوٹو: فائل

پائسز ٹو کی سیلرز کے ریسکیو کیلئے روانگی

اوپر موجود ٹیم کی جانب سے اگلے روز پہلے پائسز ٹو اور پھر پائسز فائیو کو سمندر میں اتارا گیا، ان سے خاص قسم کی رسیاں باندھی گئی تھیں تاکہ وہ اپنے مصنوعی ہاتھ کا استعمال کرتے ہوئے وہ رسیاں ڈوبی ہوئی آبدوز کو باندھ سکے اور اسے کھینچ کر سطح پر لایا جا سکے۔

پائسز فائیو سمندر کی تہہ تک پہنچنے میں تو کامیاب ہو گئی تھی لیکن اسے ڈوبی ہوئی پائسز تھری آبدوز کو تلاش کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پاور ختم ہونے کے باعث اسے ناکام ہی واپس لوٹنا پڑا۔

پائسز فائیو کو دوبارہ سمندر میں اتارا گیا اور اس مرتبہ دوپہر ایک بجے کے قریب اس نے پائسز تھری کو تلاش کر لیا تھا لیکن اس مرتبہ پائسز فائیو کو ڈوبی ہوئی آبدوز  سے رسیاں باندھنے میں کامیابی نہ ہو سکی  کیونکہ ٹوٹی ہوئی رسی کے سرے وہاں بندھے ہوئے تھے، جس کے بعد پائسز فائیو کو وہیں پائسز تھری کے ساتھ رکنے کا حکم دیا گیا۔

بعد ازاں امریکی آبدوز کرو تھری وہاں پہنچی، اور اس کے ساتھ کینیڈین کوسٹ گارڈ شپ بھی پہنچ چکا تھا تاہم کسی الیکٹریکل خرابی کے سبب وہ لانچ نہ ہو سکا۔

 آدھی رات ہوگئی اور صرف پائسز فائیو ہی وہاں ان کی مدد کیلئے موجود رہی لیکن وہ بھی رسیاں باندھنے میں ناکام ہو چکی تھی۔آدھی رات کے بعد پائسز فائیو کو بھی واپس سطح پر بلالیا گیا تھا۔

نیچے ڈوبی ہوئی پائسز تھری میں 72 گھنٹوں کی آکسیجن ختم ہونے کے قریب پہنچ چکی تھی، کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے والی لیتھیم ہائیڈرو آکسائیڈ بھی لگ بھگ ختم ہونے والی تھی۔  اندر  ٹھنڈ بے حد بڑھ گئی تھی اور دونوں سیلرز نے موت کے سایوں کو اپنے اوپر منڈلاتے ہوئے دیکھنا شروع کر دیا تھا۔

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

آبدوز میں پھنسے سیلرز نے زندگی کی امید چھوڑ دی

سیلرز کا کہنا تھا کہ 72 گھنٹوں کی آکسیجن ختم ہونے کے بعد ہم نے زندگی کی امید چھوڑ دی تھی، ہمیں اپنے سامنے موت نظر آ رہی تھی۔

پائسز ٹو کو دوبارہ پانی میں اتارا گیا

اوپر موجود ٹیم کی جانب سے یکم ستمبر کو  پائسز ٹو کو ایک بار پھر 4 بج کر 2 منٹ پر سمندر میں اتارا گیا، اس مرتبہ اس میں ایک خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا ٹوگل لگایا گیا تھا۔ 5 بجے کے قریب وہ ڈوبی ہوئی آبدوز کے اوپر پہنچ چکی تھی اور اس نے آبدوز سے رسی باندھ دی، انہیں معلوم ہوا کہ دونوں سیلرز ابھی تک زندہ ہیں، جس کے بعد امریکی آبدوز بھی نیچے پہنچ گئی، اس نے دوسری رسی باندھ دی۔

اندر پھنسے ہوئے دونوں سیلرز پریشان تھے کہ انہیں واپس کھینچا کیوں نہیں جا رہا؟ انہیں یقین نہیں ہو پا رہا تھا کہ انہیں زندہ واپس نکال لیا جائے گا کیونکہ دونوں رسیاں Aft sphere پر باندھی گئی تھیں جو کہ اتنا مضبوط نہیں ہوتا کہ آبدوز کو اوپر کھینچنے کا زور برداشت کر سکے۔

امریکی آبدوز کرو تھری بھی نیچے پہنچ گئی، اس نے دوسری رسی باندھ دی— فوٹو: فائل
 امریکی آبدوز کرو تھری بھی نیچے پہنچ گئی، اس نے دوسری رسی باندھ دی— فوٹو: فائل

ڈوبی ہوئی آبدوز کو واپس سطح پر کھینچنے کا عمل

10 بج کر 50 منٹ پر ڈوبی ہوئی آبدوز پائسز تھری کو اوپر سطح پر کھینچنے کا عمل شروع کیا گیا۔ اس دوران دو مرتبہ اس عمل کو روک دیا گیا پہلی مرتبہ 350 فٹ پر امریکی آبدوز کی رسی کمزور پڑنے کی وجہ سے  اور دوسری مرتبہ 100 فٹ کی گہرائی پر تاکہ ڈائیورز آبدوز کو کھینچنے کیلئے مضبوط رسیاں باندھ سکیں۔

آخر کاریکم ستمبر 1973 کو  دوپہر 1 بج کر 17 منٹ پر 16 سو فٹ گہرائی میں پھنس جانے والی آبدوز اور اسکے اندر پھنسے دونوں سیلرز کو 76 گھنٹے طویل مشکل ریسکیو آپریشن کے بعدباہر سطح سمندر پر لانے میں کامیابی مل گئی تھی۔

آخر کار دونوں سیلرز کو 76 گھنٹے طویل ریسکیو آپریشن کے بعدباہر سطح سمندر پر لانے میں کامیابی مل گئی تھی۔ فوٹو: فائل
آخر کار دونوں سیلرز کو 76 گھنٹے طویل ریسکیو آپریشن کے بعدباہر سطح سمندر پر لانے میں کامیابی مل گئی تھی۔ فوٹو: فائل

سیلرز کا کہنا تھا کیونکہ ہمارے پاس صرف 72 گھنٹے کی آکسیجن تھی اس لیے 76 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد اوپر موجود ٹیم کو ہمارے زندہ بچنے کی امید نہیں تھی اور وہ سمجھ رہے تھے کہ ہم مرچکے ہوں گے۔

سیلرز کا کہنا تھا کہ جب ریسکیو ٹیم نے آبدوز کا دروازہ کھولا تو سورج کی روشنی اور تازہ ہوا ہم تک پہنچی، ہماری آنکھوں کو اس روشنی نے چندھیا دیا تھا۔ ہمارے لیے آبدوز سے نکلنا بہت مشکل تھا کیونکہ ہم میں اتنی طاقت باقی نہیں رہی تھی۔

دونوں سیلرز نے تقریباً 84 گھنٹے زیر آب گزارے تھے— فوٹو: فائل
 دونوں سیلرز نے تقریباً 84 گھنٹے زیر آب گزارے تھے— فوٹو: فائل

دونوں سیلرز نے 72 گھنٹے کی آکسیجن میں دونوں سیلرز نے تقریباً 84 گھنٹے زیر آب گزارے تھے انہوں نے لگ بھگ ساڑھے 12 گھنٹے کی آکسیجن کو کسی طرح سے مینیج کیا تھا۔

مزید خبریں :