عمران خان کی سیاست کا مستقبل

" وطنی سیاست کا محور ، اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ عمران خان " ،آج دونوں فریقین بند گلی میں پھنس چُکے۔ وطنی طول عرض میں سوال ایک ہی ،" سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے کو ہے"۔ عمران خان سیاست کو کسی قسم کا ٹھکانہ مل پائیگا؟ یا ٹھکانے لگا دیا جائے گا؟

سانحہ ہےکہ قوم، سیاسی جماعتوں ، قومی اداروں میں منقسم، باہمی افراط و تفریط کا شکار۔ عمران خان کو گمان کہ اُن کی مقبولیت اپنی دھاک بٹھا چُکی ہے۔ کاش! کوئی سمجھا پاتا " ایسی مقبولیت" ایک دھوکہ اور فریب ہے۔ مقبولیت کو اپنی عافیت ، عاقبت اور سلامتی کا لائسنس سمجھ بیٹھنا اس سے بھی بڑا دھوکہ ہے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کا غیر ضروری اعتماد کہ خان کا مکو ٹھپا جانا ، چند ہفتوں کی مار، خاتمہ بالخیر ہونے کو ہے۔ فریقین کے ایک دوسرے کے بارےمیں تصورات نامکمل ہیں، اسٹیبلشمنٹ اور عمران دونوں کیلئے نقصان دہ رہنا ہے ۔

عمران خان کی کنفیوژن، مکمل طور پر سر نگوں ہونے کیلئے تیار نہیں۔ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتائوں سے رابطوں کی سر توڑ کوششیں منت ترلے ، دوسری طرف سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے ماننے والوں کو سڑکوں پر نکلنے ،مرنے مارنے کیلئےاُکسا رہے ہیں۔ مقبولیت کا بخار اور جھوٹ کے استعمال نے خود فریبی کی سہولت دے رکھی ہے۔

 BLOW HOT BLOW COLD ، ایک لمحہ اسٹیبلشمنٹ ساتھ مقابلہ میں مرنے مارنے کا عزم،دوسری سانس میں ترلے۔اسٹیبلشمنٹ کا عزم صمیم کہ عمران خان کو اپنے کئے کا بھگتنا ہو گا۔ عمران خان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آپشنز کیا ہیں؟ گرفتاری ایسے مقدمات میں کہ ضمانت نہ ہو پائے یانااہلی ایسے کہ پکا کام ہو ،کرپشن کے ایسے کیسز کہ بچ نکلنا ناممکن ہو۔ اسی تناظر میں عدلیہ کا رول انتہائی اہم ، حال ہی میں اوپر کی سطح پر عدلیہ ہواؤں کا رُخ بدل رہا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کی پہلی ترجیح تو ملٹری کورٹس ہی، سزائے موت یا عمر قید دونوں ممکن اور قابل عمل۔ ملٹری کورٹس پرجسٹس جواد خواجہ کی درخواست نے نتیجہ خیز رہنا ہے۔ اَز راہ تفنن، عزت مآب چیف جسٹس نے کمال فراخدلی سے کھڈے لائن جسٹس قاضی فائز کو 5 سال بعد کسی اہم بینچ کا حصہ بنایا ہے۔ 

کفر ٹوٹا تو بھی نیت یہ کہDamned If you do, Damned If You don't ، ملٹری کورٹس پر قاضی فائزعیسیٰ کی شمولیت ضروری سمجھی گئی۔ مجھے یقین تھا کہ قاضی صاحب بینچ سے علیحدہ ہو جائیں گے اور وہ ہو گئے۔اسٹیبلشمنٹ کیلئے ملٹری کورٹس کی ساری افادیت موجود ، سو فیصد مطلوبہ نتائج کی گارنٹی کے باوجود ، سول سوسائٹی ، میڈیا اور وکلاء نے اس کے خلاف متحدہ محاذ بناناہے۔ ملٹری کورٹس ٹرائل بلاوجہ عمران کے حق میں جائیگا ۔خدشہ یہ بھی ملٹری کورٹس کے اوپر تنازعہ بڑھا تو عمران خان کے جرائم نے پس پردہ چلے جاناہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے، عمران خان اپنے منطقی انجام کوپہنچنے والے تھے۔ دسمبر 2021 وہ زمانہ جب عمران خان اپنی غیر مقبولیت کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ زن جبکہ نواز شریف مقبولیت کے ساتویں آسماں پرتھے۔ایسے وقت جنرل باجوہ اور ساتھیوں نے انگڑائی لی اور عمران خان کو ٹھکانے لگانے کا سوچا، ملکی مفاد میں نہیں اپنے ذاتی مفاد میں۔" پروجیکٹ باجوہ" تشکیل پایا، آج جو کچھ سب " پروجیکٹ باجوہ" کا شاخسانہ ہے۔جنرل باجوہ اپنے پیشرو کی سُنت کے عین مطابق ، قیادت آخری سانس تک اپنے پاس رکھنے کے امکانات دیکھ رہے تھے۔ منتخب نمائندوں کو گھر بھیج کر لمبے عرصہ تک نگران حکومت کاقیام ، اصل مدعا تھا۔

عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا ، نئی حکومت قائم کر کے اس کو گھر بھیجنا ، نگران حکومت کا قیام کہ دائمی اقتداربالآخرجنرل باجوہ کے قدموں میں آن پڑے۔ جنوری تا مئی 2022عمران خان کوصفحہ ہستی سے مٹانا ہر طرح سے ممکن تھا ،جنرل باجوہ کی خود غرضی اور بد نیتی کہ عمران خان کو مٹنے نہ دیا جائے۔

پہلی مد میں یقینی بنایاکہ جب تک عمران خان اقتدار میں، اُس کو اپنے خلاف سازش کا شک نہ ہو تاآنکہ آخری وقت آن پہنچے۔ دھوکے میں رکھا جائے کہ عمران خان انتہائی اقدامات سے باز رہے۔ جنرل فیض مع چند اور ساتھی ، پرویز الٰہی وغیرہ کو عمران خان کےساتھ نتھی رکھا کہ بے فکری میں مارا جائے۔ عمران خان شروع ہی سے بھانپ چُکا تھاکہ اُسکے خلاف گیم آن ہے۔ جنرل باجوہ کو للکارنا، اُس کی سیاست کے وارے میں تھا۔ اپریل مئی میں نئی نویلی حکومت کو عمران کیخلاف کارروائی سے روکناجنرل باجوہ کا ناقابل معافی جُرم ہے۔ ایجنڈا ایک ہی تھا عمران خان رُخصتی کیساتھ ہی اتحادی حکومت کوایگزٹ دروازہ دکھانا۔ عمران ابھی وزیراعظم تھے کہ جنرل باجوہ نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی تجویز دی۔ بدلے میں عمران خان نے اسمبلی توڑنی تھی۔ مطمح نظر ایک ہی کہ نگراں حکومت قائم ہو سکے اور تاحیات توسیع ملازمت یقینی رہے۔

مئی کے مہینے میں تو نادان اتحادی حکومت اپنی سیاسی لٹیا ڈبوکر اسمبلی توڑنے پر تیار تھی۔ عمران خان کا 25 مئی کا لانگ مارچ غیبی مدد ثابت ہوا۔یوں حکومت اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے سے بال بال بچ گئی ۔ اتحادی حکومت شد و مد سے عمران کا یوم حساب فوری اور کڑاچاہتی تھی، جنرل باجوہ اس میں رکاوٹ بنے رہے۔

ذرا شبہ نہیں کہ 25 مئی سے پہلے لانگ مارچ ہو یا جلسے جلوس، سپریم کورٹ کا حمزہ شہباز کی حکومت ختم کر کے آئین میں ترمیم کرنایاجولائی اگست کے قومی و صوبائی ضمنی انتخابات کے نتائج ، ارشد شریف قتل کیس یا عمران خان پر قاتلانہ حملہ، جنرل عاصم منیر کی تعیناتی رکوانے کیلئےراولپنڈی لانگ مارچ یاعدالتی تعاون ، غیر مرئی قوتوںکے نقش پا قدم بقدم موجود تھے۔ 29نومبرکو جب تک جنرل باجوہ رُخصت ہوئے تو عمران خان ایک عفریت بن چُکا تھا۔

جنرل عاصم منیر نے چارج لیا تو خرابیاں جڑ پکڑ چُکی تھیں۔آج عمران سے کیسے نبٹا جائے؟"ارادہ باندھتا ہوں توڑ دیتا ہوں" ۔ وطن عزیز دلدل میں پھنس چُکا۔ اگر پاکستان کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو عمران کے وارے میں ہے کہ وہ ایک انتہائی خود غرض اور منتقم المزاج شخص ہے۔جنرل عاصم منیر کی ایک ضرورت اور بھی ،مستحکم اور دیر پا سیاسی نظام حکومت وجود میں آئے۔ جنرل صاحب! اس کیلئے زمینی حقائق کا احاطہ کئے بغیر کوئی لائحہ عمل سود مند نہیں رہنا۔عمران خان سے اُس کی شرائط پر نہیں اپنی شرائط پر نبٹیں مگر فہم و فراست کیساتھ ۔ اس وقت وہ بند گلی میں پھنس چکا ہے، اسٹیبلشمنٹ شرائط پر معاملہ فہمی ممکن ہے۔ اگر تدبر کی غیر موجودگی میں اندھا دھند آگے بڑھے تو پھرنتیجہ ٹن ٹن گوپال۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔