24 جون ، 2023
(یہ کالم سانحہ یونان پر ہے لیکن ٹائی ٹینک ایڈونچر میں آبدوز ڈوبنے سے جو قیمتی جانیں گئی ہیں بالخصوص ہمارے ملک میں اعلیٰ خدمات سرانجام دینے والی داؤد فیملی کے چشم و چراغ جس طرح گل ہوئے ہیں یہ جتنا تکلیف دہ ہے اتنا ہی دردناک سبق بھی ہے لا حاصل مہم جوئی یا ایڈونچرکا شوق پالنے والوں کیلئے)
یونان کے قریب سمندر میں کشتی ڈوبنے سے تین سو کے قریب پاکستانی نوجوان اپنی قیمتی جانیں گنوا بیٹھے ہیں میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کشتی میں کوئی ساڑھے سات سو لوگ سوار تھے جن میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی اور انہیں ٹھہرایا بھی نچلی منزل میں گیا تھا دیگر میں مصر، شام اور لیبیا کے شہری تھے اور کشتی کی صلاحیت سےدوگنالوگ اس میں ٹھونسے گئے تھے۔
اس طرح کی تباہی کا یہ کوئی پہلا یا آخری سانحہ نہیں ہے اس سال مارچ میں بھی اسی روٹ پرکشتی الٹنے سے پچاس سے زائد پاکستانی لقمۂ اجل بن گئے تھے ۔یونان میں ہمارے صحافی دوست اشراق نذیر چوہدری کے بقول اس نوع کے چھوٹے موٹے سانحات تو آئے روز کا معمول ہیں اب چونکہ ہلاکتیں بہت زیادہ ہوئی ہیں اس لیے شور بھی زیادہ اٹھا ہے بلکہ خود یونان کے اندر عوامی سطح پر انسانی جانوں کے ضیاع پر بہت دکھ محسوس کیا گیا ہے اور یونانی کوسٹ گارڈز پر بھی سخت تنقید ہوئی ہے دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جتنی جانیں بچی ہیں یہ بھی یونانی حکومت کی کاوش سے ممکن ہوئی ہیں اور یونان میں سرکاری طور پرتین روزہ سوگ منایا گیا ہے۔
اشراق نذیر کے بقول یہ معمول ہے کہ ہمارے پاکستانی نوجوان قانونی طور پر ترکی تک پہنچ جاتے ہیں اس سے آگےوہ دیگر یورپین ممالک تک پہنچنے کیلئے غیر قانونی طور پر زمینی یا سمندر کا راستہ اختیار کرتے ہیں، اسی کوشش میں بعض اوقات وہ پکڑے بھی جاتے ہیں۔ اس سارے دھندے میں انسانی اسمگلروں یا ٹریول ایجنٹوں کا رول بہت گھناؤنا ہے جو بھاری رقوم بٹور کر نوجوانوںکو یورپی ممالک تک پہنچانےکا وعدہ کرتےہیں ، ان لوگوںنے جعلی پرمٹ ویزے تک بنالینے کا سلسلہ بھی پھیلا رکھا ہے۔ کشتی حادثےمیں زندہ بچ جانیوالے پاکستانیوں میں سے آٹھ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک کروڑ ستاسی لاکھ روپے اپنے ایجنٹوں کو دیے تھے، اب تک لواحقین کی جتنی بھی رپورٹس سامنے آئی ہیں ان کے مطابق پچیس سے پینتیس لاکھ فی کس کے لحاظ سے ان ایجنٹوں کو ادائیگیاں کی گئیں، ظاہر ہے گھروالوں نے اپنی زمین، زیور یا مال مویشی بیچ کریا قرض اُٹھا کر یہ بھاری رقوم اکٹھی کی ہونگی ان وعدوں پر کہ ہمارا بچہ یورپ میں کمائی کرے گا تو یہ قرضہ اُتار دیں گے، ان لواحقین کا دکھ درد قابلِ فہم ہے اور پھر زندگی تو انمول ہے جسے کسی بھی صورت اس نوع کے رسک میں نہیں ڈالا جانا چاہیے۔
بجھے دل کے ساتھ درویش کا سوال ہے کہ اتنے بڑے انسانی المیے کا مجرم کسے گردانا جائے؟ مانا کہ دیگر مسلم ممالک کے شہری بھی اس سانحہ میں ہلاک ہوئے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ہمارے پاکستانی بالخصوص، ایسی انسانی بربادی میں سب سے آگے رہتے ہیں؟ جن ممالک کے اندرونی خلفشار یا جنگی صورتحال کی وجہ سے حالات خراب ہیں جیسے سیریا، سوڈان، افغانستان، لیبیا یا عراق وغیرہ وہ تو پھر بھی قابلِ فہم ہیں پاکستان میں تو الحمدللہ کوئی جنگ نہیں ہو رہی نہ کسی بیرونی طاقت نے یہاں کوئی حملہ کررکھا ہے پھر ہمارے پاکستانی آخر کیوں پاکستان سے بھاگ جانا چاہتے ہیں؟
درویش اپنے پاسپورٹ کی تجدید کیلئے گیا تووہاں نوجوانوں کی لمبی لائنیں دیکھ کر پریشان ہوگیا پتہ چلاکہ اس ایک سال میں قانونی طور پر دس لاکھ کے قریب پڑھے لکھے ہنر مند پاکستانی اپنا ملک چھوڑ کر یورپ امریکا یا کینیڈا جا بسے ہیں جو نوجوان قانونی طور پر نہیں جاسکتے، وہ یہاں کوئی چھوٹا موٹا کام کرنے کی بجائے مغربی ممالک پہنچنا اپنا خواب کیوں سمجھتے ہیں؟ آخر کیوں؟
سچ تو یہ ہے کہ درویش کے اپنے بچے چھوٹی عمر میں ہی یورپ جاچکے ہیں اور خود اسے بھی پچھتاوا ہے کہ وہ نوعمری میں ہی یورپ کیوں نہ چلا گیا اپنی زندگی یہاں کیوں برباد کی ہمارے پورے سماج کو سوچنے کے لائق سوال ہے کہ آخر کیوں؟کیا اس کی وجہ محض ہماری حکومتوں کی کوتاہی ہے کہ انہوں نے یہاں اچھی گورننس نہیں دی، انہوں نے اچھی گورننس کیوں نہ دی؟ کیا ہم لوگ اتنے بُرے ہیں؟ پھر سوال آئے گا کہ آخر ہم لوگ اتنے بُرے کیوں ہیں؟
پون صدی قبل ہم یونائیٹڈ انڈیا کا جزو لاینفک تھے، آج انڈیا کی آبادی ہم سے کئی گنا زیادہ ہے آخر اُن کی کشتیاں یونان کے قریب کیوں نہیں ڈوبتیں ؟ انکے لوگ غیرقانونی طور پر یورپ پہنچنے کیلئے جانوں پر کیوں نہیں کھیل جاتے؟ وہ اگر جاتے بھی ہیں تو باوقار طریقے سے پڑھ لکھ کر یا کوئی ہنر سیکھ کر، کئی دوستوں نے بتایا کہ انڈین اکثر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں باوقار عہدوں پر فائز ہوتے ہیں اور ہمارے لوگ اکثر ان کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں۔
یونان سانحہ میں لقمۂ اجل بننے والوں میں سیالکوٹ، گجرات اور منڈی بہاؤالدین کے زیادہ لوگ ہیں ۔آج ہماری نئی نسل سخت مضطرب و پریشان ہے، ’ اے اجتماعی شعورِ قوم خدارا دارو کوئی سوچ ان کی بھی پریشاں نظری کا‘ آج سوشل میڈیا پر بکثرت دکھایا جارہا ہے کہ سن سینتالیس میں ہم لٹ پٹ گئے پاکستان بنانے اور یہاں آنے کیلئے، اب لٹ پٹ رہے ہیں یہاں سے جانےکیلئے یہی منفی ذہنیت اس المیے کی جڑ ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔