فیکٹ چیک: کیا کراچی بندرگاہ متحدہ عرب امارات کی کسی کمپنی کو فروخت کی جا رہی ہے؟

متحدہ عرب امارات کی کمپنی بندرگاہ پر 33 میں سے صرف چار برتھوں کو استعمال کرتے ہوئے اس پر پہلے 10 برسوں میں 220 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گی۔

پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے اپنی پوسٹس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے کراچی کی بندرگاہ پر اپنے تمام کارگو ٹرمینلز کو صرف 50 ملین ڈالرز کے عوض 50 سال کے لیے ایک بین الاقوامی کمپنی کے حوالے کر دیا ہے۔

یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔

دعویٰ

22 جون کو ایک تصدیق شدہ ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ”کراچی کی پوری بندرگاہ ابوظہبی کو 50 سال کے لیے 50 ملین ڈالرزمیں لیز پر دی گئی اور 18 ڈالر فی کنٹینر۔ جی ہاں، 50 سال صرف 50 ملین ڈالرز میں۔“

اس ٹوئٹ کو اب تک 3,000سے زائد مرتبہ ری ٹوئٹ اور 8,000سے زائد مرتبہ لائک کیا گیا۔

23 جون کوایک فیس بک صارف نے بھی اپنی پوسٹ میں ایسا ہی دعویٰ کیا۔

https://www.facebook.com/AnotherBrownGuy/videos/1196300337716524/

اس نیوز آرٹیکل کے شائع ہونے تک اس پوسٹ کو 9,000مرتبہ شیئر کیا گیا ۔

پاکستان تحریک انصاف کے معاشی ترجمان مزمل اسلم نے بھی لکھا کہ پورٹ [بندرگاہ] کو 50 ملین ڈالر زکے عوض حوالے کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

انہوں نے مزید لکھا کہ” حکومت ان پر رائلٹی لگا سکتی ہے، اس معمولی[سی رقم] 50ملین ڈالر سے زیادہ تو منافع باہر چلا جائےگا۔ براہ کرم سمجھدار ی کا ثبوت دیں۔“

حقیقت

حکام نے تصدیق کی ہےکہ پاکستان کراچی میں واقع اپنی پوری بندرگاہ متحدہ عرب امارات کی کسی کمپنی کے حوالے نہیں کرے گا۔کمپنی بندرگاہ پر 33 میں سے صرف چار برتھوں کو استعمال کرتے ہوئے اس پر پہلے 10 برسوں میں 220 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گی، برتھس 50 برسوں کےلیے حوالے کی گئیں ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے اے ڈی (ابو ظہبی) پورٹس گروپ نے 22 جون کو پاکستان کے سرکاری کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے ساتھ ایک رعایتی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

22 جون کوکمپنی کی طرف سے جاری کی جانے والی ایک پریس ریلیزمیں بتایا گیا ہے کہ 50 سالہ رعایتی معاہدے کی شرائط کے تحت، اے ڈی پورٹس گروپ کراچی پورٹ کے (East Wharf) میں صرف برتھ نمبر6،7،8 اور 9 کو چلانے کا انتظام اور ڈیویلپ کرے گا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں قائم کمپنی پہلے 10 برسوں میں 220 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گی۔

پاکستان کے وزیر برائے بحری امور فیصل علی سبزواری نےمیسجزکے زریعے جیو فیکٹ چیک کوبتایا کہ” 50 ملین ڈالر زبین الاقوامی کمپنی پاکستان کے رعایتی اثاثوں [بندرگاہ پر] اور دیگر چارجز وغیرہ کے لیے پیشگی ادا کرے گی۔“

متحدہ عرب امارات کی کمپنی پاکستان کو مزید 18 ڈالر زفی باکس رائلٹی، زمین کا کرایہ اور دیگر چارجز ادا کرے گی، جس میں ہر تین سال بعد 5 فیصد اور 15 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔

23 جون کو فیصل علی سبزواری نے ایک پریس کانفرنس بھی کی جہاں انہوں نے مزید واضح کیا کہ بندرگاہ کسی کمپنی کو فروخت نہیں کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ چار برتھوں پر پھیلے ہوئے یہ کنٹینر ٹرمینلز فلپائن کی ایک کمپنی پہلے ہی 2002 ءسے چلا رہی تھی، انہوں نے مزید کہا کہ اس کمپنی کے ساتھ یہ رعایتی معاہدہ 21 سال کے لیے تھا اور حال ہی میں ختم ہوا ہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی پورٹ کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے ایک نئی کمپنی کے ساتھ رعایتی معاہدے پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا۔

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔