بلاگ
Time 02 جولائی ، 2023

بڑی عید پر آئی ایم ایف کا بڑا ’’تحفہ‘‘

کسی نے کیسے کمال دکھایا، بڑی عید پر آئی ایم ایف کے 9 ماہ کیلئے 3ارب ڈالرز کے بڑے ’’تحفے‘‘ پر وزیراعظم شہباز شریف شادماں ہیں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے۔ کئی مہینوں کی کاوشوں، منت ،زاریوں اور سفارت کاریوں نے آخری وقت پر کام کردکھایا۔ اور ایک غیور قوم سال بھر کیلئے دیوالیہ ہونے سے بچ رہی ۔ اب میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پہ ایک طوفان جہالت مچا ہے ۔ ’یوتھیوں‘ اور ’پٹواریوں‘ میں بلا کی جنگ جاری ہے اور اس ’’گناہ‘‘ پر جسکی مرتکب سبھی حکومتیں رہی ہیں۔ 

بدقسمتی سے نہ کوئی بی پلان تھا اور نہ کوئی متبادل راستہ چیختے چلاتے مباحثوں میں کہیں نظر آیا۔ بہرکیف جب وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر من و عن عملدرآمد کردیا تو اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کا مژدہ سنادیا گیا۔ خیر سے وطن عزیز کو 9 ماہ کیلئے مالی کشادگی مہیا ہوگئی جس دوران آپ سے اُمید یہ کی گئی ہے کہ آپ اپنے خرچوں اور گلچھروں کو بڑی حد تک کم کردیں گے، آمدنی بڑھائیں گے اور معیشت کے مستقل عارضوں اورا سٹرکچرل خرابیوں کو دور کرنے کے کسی قابل عمل نسخے پر عمل کرتے ہوئے ڈیفالٹ کی سر پر لٹکتی تلوار سے مستقل بچائو کی راہ نکالیں گے۔

 فی الحال معاشی و مالیاتی بے یقینی کے بادل چھٹ جائیں گے اور اتحادی حکومت کو اگلے ڈیڑھ ماہ میں مہنگائی کی شدت کے احساس کی تلخی میں کمی کرنے کیلئے ٹھنڈے شربت کی کچھ سبیلیں لگا کر عوام کی پیاس بجھانے کا تھوڑا بہت موقع میسر آجائے گا بشرطیکہ سیلابوں نے پھر سے تباہی نہ مچادی۔ 12 اگست تک اس حکومت اور باقی ماندہ اسمبلیوں کو فارغ ہوجانا چاہیے اور مشکل فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے عبوری حکومت کو 60/90 روز میسر ہوں گے اور پھر جو بھی نئی منتخب حکومت آئے گی، اگر وہ جھرلو کی مرہون منت نہ ہوئی تو اگلے پانچ برس کیلئے کسی معاشی میثاق پر اتفاق رائے پیدا کرکے آگے بڑھنے کی ممکنہ کوشش کرے گی۔

گزشتہ کالموں میں ہم معاشی میثاق کے حوالے سے اپنی تجاویز پیش کرچکے ہیں، لگتا ہے انہیں اقتدار کے ایوانوں میں کسی طرح کی پذیرائی نصیب نہیں ہوئی اور وہ نقارخانے میں طوطی کی راگنی ثابت ہوئیں۔ اب ہمارے دوست اور معاشی ماہر ڈاکٹر پرویز طاہر نے نہایت ناامیدی کے عالم میں ایک انگریزی اخبار میں اپنے کالم میں ٹیکسوں میں اضافے کی بے امیدی میں خرچوں میں کمی کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ 

ان کے جائزے کے مطابق جی ڈی پی میں ٹیکس آمدنی کی شرح 1980 کی دہائی میں 13.4 فیصد (افغان جہادکی دہائی) سے مسلسل کم ہوتی ہوئی سال 2023 میں 8.5 فیصد رہ گئی ہے۔ لہٰذا ایک ٹیکس چور کلچر کی موجودگی میں موصوف نے مالی خسارے کو کم کرنے کیلئے اخراجات میں بڑی ممکنہ کٹوتیوں کی فرمائش کی بھی ہے تو انہیں مفتی و خاکی امرا سے جو بے پناہ اخراجات کی برسات سے فیض یاب ہوتے ہیں اور یہ صرف نظر کرتے ہوئے کہ امرا کی مراعات و مستثنیات 4000 ارب روپے سے زیادہ ہیں۔ موجودہ بجٹ میں مالی خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کا 6.5 فیصد لگایا گیا ہے جبکہ سود کی ادائیگی پر خرچہ 6.9 فیصد ہوگا۔ اس معاملے میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے انہوں نے خوش گمانی یہ پیدا کی ہے کہ 88 فیصد قرض تو داخلی ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے۔ 

اس کا آسان حل تو بینکوں کو قومیانے میں ہے اور قرض پہ سود کو اسٹیٹ بینک آمدنی میں بدل سکتا ہے۔ بیرونی قرضوں کی ری شیڈولنگ ہوسکتی ہے۔ کم از کم 38 ارب ڈالرز کے دو طرفہ قرضے کی ادائیگی لمبے عرصے کیلئے آسان بنائی جاسکتی ہے۔ دوسرے نمبر پر دفاع کا خرچہ جو سب ملا کر 2500 ارب روپے ہے جو پنشنوں اور سول آرمڈ فورسز کے خرچے نکال کر جی ڈی پی کا 1.7 فیصد ظاہر کیا گیا ہے۔ اس میں اصل دفاع کو کمزور کیے بغیر 20 فیصد کمی کی جاسکتی ہے۔ 

گرانٹس اور ٹرانسفرز تیسرا بڑا خرچہ ہے۔ وہ شعبے اور وزارتیں جو 18 ویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کا حصہ نہیں رہیں، ان پر 1.4 فیصد خرچ کرنا غیر آئینی ہے۔ وفاق کے پاس صرف آدھا درجن وزارتیں اور ایک درجن ڈویژن ہی رہنی چاہئیں جس سے اخراجات میں ایک فیصد کمی ہوسکتی ہے، ترقیاتی بجٹ سارے کا سارا قرض سے پورا کیا جاتا ہے جبکہ ترقی اور معاشی نمو متعین سرمایہ کاری سے ممکن ہے۔ انکے مطابق یہ کٹ لگا کر مالی خسارہ 3.2 فیصد رہ جاتا ہے۔ ریاست کی 2.2 فیصد جی ڈی پی کے ٹیکسوں کے اخراجات کو نکال دیا جائے تو مالی خسارہ ایک فیصد رہ جاتا ہے۔

یہ تمام غیر پیداواری اخراجات آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا بوجھ عوام پر ڈالے بنا بھی کم کیے جاسکتے تھے۔ اس سے آگے سیاسی معیشت کے استاد ڈاکٹر پرویز طاہر کے پر جل جاتے ہیں اور وہ بھول گئے ہیں کہ جو امرا ٹیکس دینے اور مراعات چھوڑنے کو تیار نہیں وہ اپنی مفت خوری اور کرایہ خوری کیلئے اخراجات کے مال غنیمت کو کیوں چھوڑیں گے جسکی عنایات سے پاکستان کے اُمرا کی جدید یورپی بستیاں آباد ہیں اور ایک غریب و خستہ حال آبادیوں کے بے کراں سمندر میں جنکی رشنیوں سے اندھیرے جگمگاتے ہیں۔

 آپ کان آمدنیاں اور ٹیکس بڑھانے سے پکڑیں یا پھر اخراجات کے خراج کی وصولی بند کر کے پکڑیں زک امرا کے قبضہ کو پہنچتی ہے جس میں تمام لحیم شحیم اور غضبناک ادارے شامل ہیں۔ ڈاکٹر پرویز کا ٹیکس وصولی چھوڑ کر اخراجات کم کرنے کا نسخہ دراصل اخراجات سے حاصل مفت خوری اور کرایہ خوری پہ ہاتھ ڈالنے کا ہے۔ امرا اور تگڑے ادارے ہاتھ ڈالنے دیتے ہیں؟ یہیں سے سیاسی معیشت کا سوال بنیادی سوال کے طور پر اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ اُمرا ٹیکس دینے کو تیار نہیں، نہ ریاست خرچے کم کرنے کو تو پھر 9 ماہ بعد پھر دیوالیہ ہونے کا معاملہ ہمارے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہوگا۔ اس ملک میں عجب عجب بیانیے چل رہے ہیں۔ 

سب سے بڑا بیانیہ قومی خود مختاری اور قومی غیرت کا ہے جو کب کی بیرونی ساہوکاروں کے ہاتھ گروی رکھی جاچکی ہے۔ ایک طرف عمران خان بیرون ملک پاکستانیوں کے چندے سے ملک سنبھالنے کے موقف پہ ڈٹے ہیں اور اس احمقانہ نسخہ پہ انہیں کوئی سمجھانے والا نہیں۔ دوسری طرف نواز لیگ نواز شریف کی ڈالروں سے لدی واپسی اور 2017 کی اینٹ و سریے کی ترقی کے ماڈل کی واپسی پہ قوم کی اُمیدیں وابستہ کر نے پہ تلی ہے۔ بیچ میں پیپلز پارٹی کی سوشل ڈیموکریسی کہیں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ بھلا ایسے معیشتیں چلتی ہیں؟ ایسے میں جانے کونسے میثاق معیشت کی بات کی جاتی ہے کہ جبکہ کوئی ٹیکس دینے پہ راضی ہے، نہ خرچے کم کرنے کو تیار ۔ وقت کم ہے، اگلی حکومت تیار ہوکر میدان میں آئے اور جمہوری طور پر کھلے انتخابی معرکے کے بعد کسی کو میدان سے نکالے بغیر!ایسی مشکل کبھی تو نہ تھی ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔