14 جولائی ، 2023
مملکت کا بحران آئینی نہ معاشی نہ معاشرتی، سیاسی عدم استحکام ہی ماں، اِسی کی کوکھ سے سارے بحرانوں نے جنم لیا ۔ عمران خان سے بھلا یہ کریڈٹ کون چھین سکتا ہے کہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے میں قدرت حاصل ہے۔
قومی میڈیا سے محرومی پرحاشیہ آرائی اور مبالغہ آرائی کی مقدار بڑھ چُکی ہے۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانا متعدی وبا بن چُکی ،چاہنے ماننے والوں کی اکثریت موذی مرض میں مبتلاہے۔ میڈیا پر غیر معمولی دسترس اور جارحانہ اندازِ سیاست عمران کیلئے’’واٹر لو‘‘ (WATERLOO) ثابت ہو رہا ہے۔سیاسی حکمت عملی ، فہم و فراست تدبر سے عاری ، سہولت اتنی کہ بھیانک انجام اور حالت کی سنگینی سمجھنے سے قاصر ہے۔چنانچہ د یر سویر ممکن، نام و نشان مٹنا، دیوار پر کندہ ہے۔
اقتدار سے علیحدگی پر سنجیدگی سے تن من دھن کیساتھ فوری الیکشن کا مطالبہ کر بیٹھے۔ 25مئی 2022 کے لانگ مارچ کی’’شاندار ناکامی‘‘کے بعد بخوبی جان گئے کہ الیکشن نہیں ملنا۔تب سے فوری الیکشن پرتکرار صرف ڈھونگ ، مقبولیت کی موجودگی میں الیکشن کیلئے رالیں آخری سانس تک ٹپکتی رہنی ہیں۔ اصل مدعا شعوری یا لا شعوری طور پر مملکت کو برباد کرنے کیلئےہر حربہ بروئے کار لانا ہے۔ خود تو ڈوبے ہیں، مملکت کو ساتھ ڈبونے کی خواہش موجزن ہے۔
آج ہم جہاں کھڑے ہیں ، جنرل باجوہ کی مرہون منت ہے۔پہلی توسیع کے بعد ہی اگلی توسیع کی ٹھانی، تو ایک پلان ترتیب دیا۔ خواہش کو کامیاب بنانےکیلئے 2020 ءسے ہی جنرل فیض حمیدکیساتھ مل کر عملی جامہ پہنانا تھا ۔پہلے مرحلے میں عمران خان کا مکو ٹھپنا تھا۔ بعد ازاں اپوزیشن جماعتوں سے وعدہ ِفرداپر احتجاجی تحریک شروع کروانی تھی۔
یقین ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں اپنا سیاسی بیانیہ عمران خان کیخلاف رکھتیں تو فیضِ باجوہ سے کامیابی اُنکا مقدر بنتی۔بُرا ہو نواز شریف کا،رنگ میں بھنگ ڈال دی ۔20 اکتوبر کو گوجرانوالہ کی تقریر نے مزہ کر کراکر ڈالا۔ توپوں کا رُخ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی طرف موڑ دیا۔ اپوزیشن میں سراسیمگی اور بد مزگی ضرور پھیلی،نواز شریف کی عوامی پذیرائی اور مقبولیت کی ایک نئی لہر اُٹھی۔
مریم نواز جہاں جاتیں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اُمڈ آتا۔ کارکنان کے جوش و جذبہ نے مریم نواز کے جذبات کو بھی بھڑکائے رکھا۔ سچ اتنا کہ دسمبر 2021 میں نواز شریف ملکی تاریخ کے مقبول ترین لیڈر جبکہ عمران خان تاریخ کے بد ترین غیر مقبول رہنماٹھہرے۔ نواز شریف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کا جادوسر چڑھ کر بول رہا تھادوسری طرف عمران خان، جنرل باجوہ کے’’کارناموں‘‘ میں برابرکے شریک اور مستفید ، ایک مہرہ ناچیزکہلائے۔
یہی ایک وجہ جب نواز شریف کا مقبول بیانیہ عمران خان کو اور عمران خان کا غیر مقبول بیانیہ نواز شریف کو منتقل ہوا تو عمران خان کی عوامی سپورٹ ساتویں آسماں پر جاپہنچی جبکہ نواز شریف کی سیاست زمیں بوس ہونا بنتی تھی ۔ سانحہ کہ5 سال 5 ماہ جنرل باجوہ کی گود میں کھیلنے والا، اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ہتھیانے میں کامیاب ہو گیا۔دوسری طرف 5 سال 5 ماہ جنرل باجوہ سے جوتے کھانے والے، چند ماہ کے اقتدار کے لالچ میں مہرہ بنے ،نواز شریف کی مقبول سیاست بیچ ڈالی۔
واہ! جنرل باجوہ تیری تدبیر کہ عمران خان سے حکومت واپس لیکر نگران سیٹ اَپ کیلئے راہ ہموار کرنا تھی۔ باجوہ پلان کا پہلا اور آخری مقصدیہی تھا۔ شکریہ نواز شریف! باجوہ پلان ناکام بنایا۔ بد قسمتی اتنی کہ پرو اسٹیبلشمنٹ غیر مقبول سیاست اُنکے گلے پڑ گئی۔باجوہ پلان کیمطابق جب اپوزیشن تحریک عدم اعتمادلائی تو جنرل باجوہ نے کمال ِ ہشاری سے عمران کو قائل کر لیاکہ اگراپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے تو آپ اسمبلی تحلیل کر دیں ۔
باجوہ کی پہلی ناکامی اُسی وقت مقدر بنی جب اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد واپس نہ لینے پر ڈٹ گئیں ۔ باجوہ فیض گٹھ جوڑ کا ہمیشہ سے ٹارگٹ نگران سیٹ اَپ کا قیام ، اسکی موجودگی میں راوی نے چین اورتوسیع مدت ملازمت کی ضمانت دینا تھی۔ جنوری 2022 سپریم کورٹ میں خالی 5 اسامیاں ہتھیانا تھیں۔5 مرضی کے ججوں کیساتھ سپریم کورٹ قبضہ استبداد میں رہتا تو قاضی فائز عیسیٰ کا مکو ٹھپنا اور غیر معینہ مدت تک نگران حکومت رکھنا ممکن تھا ۔بد نیتی کا ایک پہلو اور بھی، جنرل عاصم منیر کی مدت ملازمت 1 ماہ 15 دن کم کر دی کہ ممکنہ دوڑ سے باہر رہیںجبکہ جنرل فیض کو لیفٹیننٹ جنرل پر ترقی 29 نومبر کو ملحوظ خاطر رکھ کر دی گئی ۔’’ آخری تدبیر اللہ کی‘‘ ، باجوہ پلان کی ہر تدبیر ناکام ٹھہری۔
توسیع مدت ملازمت کی تگ و دو میں کیا کیا جتن نہ کئے۔ جنرل عاصم منیر کی ممکنہ تعیناتی رُکوانے کیلئے 26 نومبرکولانگ مارچ اور صدر علوی سے مل کرنوٹیفکیشن سے کھیلنا شاملِ حال رہے ۔
عمران خان مملکت کو اپنے بھیانک انجام کیساتھ نتھی رکھنا چاہتے ہیں۔اقتدارسےجاتےجاتے معیشت کیلئے بارودی سرنگیں بھی اسی لئے بچھائیں۔مزید ابتری کیلئے لوگوں کو سڑکوں پر لا کر سیاسی، معاشی عدم استحکام کو بڑھایا۔اسی تگ و دو میں IMF تک رسائی کی کوشش کی کہ مدد نہ مل سکے اور مملکت ڈیفالٹ کر جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کیخلاف عمران خان کا دروہ مملکت پر قہر بن کر ٹوٹ رہا تھا۔
عمران خان بمقابلہ مملکت ،کیا عمران خان متحمل ہو پائیگا؟ عمران خان یہ بات جان چُکے ہیں کہ ریاست کو ساتھ لیکر ڈوبنے میں ہی اُنکی آسودگی ہے۔کنفیوژن اور بد حواسی نے عمران کو ہلکان کر رکھا ہے ۔ اس لئے اندرون خانہ منت ترلے اور اندرون و بیرون ملک بذریعہ سپورٹر آگ لگانے، اُکسانے اور انتشار پھیلانے کی ترویج ساتھ ساتھ ہے۔’’شب کو مے خوب سی پی، صبح کو توبہ کرلی... رِند کے رِند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘۔ پچھلے سال سے ریاست مخالف بیانیہ اور امریکہ اسرائیل کی بَروقت مدداسی مد میں سامنے آچُکی۔حکومت اسٹیبلشمنٹ سمیت عمران خان سب بند گلی میں ، در حقیقت مملکت بند گلی میں ہے۔
افراط و تفریط میں ایسی جگہ پہنچ چُکے کہ مملکت کا نظام آگے بڑھانے کیلئےآئین یا ماورائے آئین، سب کچھ بے دم و بے بس نظر آرہا ہے۔ مملکت ٹکرائو، انارکی، سول وار، انتشار کی گرفت میں آنے کے قریب ہے۔عمران خان ایک ماہر ملمع ساز، پاکستان اور اسلام کیلئے مگرمچھ کے آنسو ضرور بہا رہے ہیں۔عملاً وہ سب کچھ تہس نہس کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ یہ سارے کرتب اُنکی اپنی تباہی کا سامان بنیں گے۔ میری اُن سے التجا کہ پاکستان سے بدلہ نہ لیں، جناب کو راستہ دینا ہوگا۔ اگر آپ نے انتقام میں اپنے آپ کو خرچ نہ کیا تو یقین دِلاتا ہوں آٹھ دس سال بعد اقتدار دوبارہ آپکے قدموں میں ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔