Time 18 جولائی ، 2023
پاکستان

فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیس: فل کورٹ بنانے کی حکومتی استدعا مسترد

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

سماعت کا آغاز ہوا تو درخواست گزار صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کا کہنا تھا کہ میں نے تحریری جواب جمع کرادیا ہے، میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا میں عدالت کی توجہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر دلانا چاہتا ہوں، آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کا ٹرائل نہیں ہوسکتا، جسٹس اجمل میاں کے فیصلے میں سیکشن 8 ٹوکا حوالہ دیا گیا ہے، فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل صرف افواج کے اہلکاروں کا ہوسکتا ہے، فیصلےمیں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہوگی۔

وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کیس فیصلے میں ہےکہ ایسا قانون لاگو نہیں ہوسکتا جس سے بنیادی حقوق معطل ہوں، جسٹس فائز عیسیٰ نے قرار دیا کہ فوجی عدالتیں سویلین کے ٹرائل کی آئینی عدالتیں نہیں، میری درخواست میں آرٹیکل 245 کے تحت افواج طلب کرنے کا معاملہ بھی ہے، عدالت نےایف بی علی کیس میں سویلین کے آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل پر لکھا، عدالت نےکہا کہ سویلین دفاعی معاملات میں ملوث نکلے تو آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہوسکتا ہے، 21 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلے میں فوجی عدالتوں سے سزاؤں پر جوڈیشل ریویو کی اجازت تھی، بنیادی نکتہ یہ ہےکہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائےگا،کیا ملزمان کو فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف آئینی درخواست دینےکی اجازت ہوگی؟

جسٹس یحیٰی آفریدی کا کہنا تھا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سویلین کا ٹرائل پہلے سول عدالتوں میں ہو؟ اگر سول عدالتوں میں چارج لگے تو معاملہ فوجی عدالتوں کو بھیجا جاسکتا ہے؟ اس پر عابد زبیری کا کہنا تھا کہ بالکل، ٹرائل پہلے سول عدالتوں میں ہونا چاہیے، معلوم نہیں گرفتار افراد پر فوجی عدالتوں میں چارج فریم ہوچکا ہے یا نہیں۔

جسٹس منیب اختر نےکہا کہ سویلین پر اگر چارج فریم ہوجائے تو کیا فوج اس کو تحویل میں لے سکتی ہے؟ کیا فوج سویلین کو تفتیش کے لیے بلاسکتی ہے؟

شہریوں کا فوجی ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا: صدر سپریم کورٹ بار

عابد زبیری کا کہنا تھا کہ جو شہری افواج کی تحویل میں ہیں ان کا فوجی ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

جسٹس یحیٰی آفریدی کا کہنا تھا کہ کیا سویلین کے فوجی ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم ہونا ضروری ہے یا ملزمان کا دفاع یا افواج سے تعلق جوڑنا؟ عابد زبیری کا کہنا تھا کہ پہلے سویلین کا فوج یا دفاع سے تعلق جوڑنا ضروری ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جن فیصلوں کا آپ حوالہ دے رہے ہیں یہ اس وقت کے ہیں جب فوجی ٹرائل کے بارے میں آئینی ترمیم نہیں ہوئی تھی، آپ کہہ رہے ہیں ملزمان کا تعلق جوڑنا ٹرائل کے لیے پہلی ضرورت ہے؟ آپ کے مطابق تعلق جوڑنے اور آئینی ترمیم کے بعد ہی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کا ٹرائل کیا گیا تھا، فوج سے اندرونی تعلق ہو تو کیا پھر آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں؟عابد زبیری کا کہنا تھا کہ ماضی میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کی اجازت مخصوص وقت کے لیے دی گئی، عام شہریوں کا آرٹیکل 175 کے مطابق ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ کے مطابق ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے بنیادی حقوق معطل ہوجاتے ہیں، اگر عام شہری ملکی دفاع کے خلاف کام کریں تو پھرکیا ہوگا؟

صدر سپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ ملکی سلامتی یا دفاع کے خلاف عام شہری ملوث پائے جائیں تو بھی فوجی ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم لازمی ہے، خصوصی عدالتوں کے قیام کے لیے آئینی ترمیم ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے عابد زبیری سے سوال کیا کہ کورٹ آف لاء کی آپ کی نظرمیں کیا تعریف ہے؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ کورٹ آف لاء وہ ہے جہاں ملزمان کو فیئر ٹرائل اور وکیل کا حق ملے، ملزمان کو سزاؤں کے خلاف ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرنےکا اختیار ہونا چاہیے، مئی کے بعد کچھ لوگوں پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لاگو ہوا کچھ پر نہیں، اگر آپ نے خصوصی ٹرائل کرنا ہے تو آئینی ترمیم سے خصوصی عدالت بنانا ہوگی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ خصوصی عدالت سے مراد آپ کی وہ عدالت ہے جو ہائی کورٹ کے ماتحت ہو؟ عابد زبیری نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے والے جوڈیشل نہیں ایگزیکٹو ممبران ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لیاقت حسین کیس کہتا ہےکہ افواج تحویل میں لے کر تفتیش کرسکتی ہیں لیکن ٹرائل نہیں کرسکتیں۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ کون اور کس مرحلے پر فیصلہ کرتا ہےکہ الزام پر چارج فریم کیا ہوگا اور ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا؟ وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا کہ سول عدالت ہی فیصلہ کرسکتی ہےکہ ملٹری ایکٹ لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔

جسٹس مظاہر نے سوال کیا کہ اگر ثابت ہوجائے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو کیا سویلین کو فوجی عدالتوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے؟

جسٹس یحیٰی آفریدی کا کہنا تھا کہ ملٹری لاء میں "چارج" کا لفظ کہاں دیا گیا ہے؟ یہ بھی بتانا ہوگا کہ ملٹری ایکٹ کے تحت چارج ابتدائی مرحلے پر لگتا ہے یا سماعت کے بعد فریم کیا جاتا ہے؟ عابد زبیری کا کہنا تھا کہ ملٹری ایکٹ کے سیکشن ٹو میں چارج کی تعریف نہیں ہے، اگر ملزمان کا فوج یا دفاع کےخلاف کوئی گٹھ جوڑ ثابت ہو تو پھر فوجی ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم ناگزیر ہے۔

اس دوران اٹارنی جنرل منصورعثمان نے 23 جون کے حکم نامے میں جسٹس یحیٰی آفریدی کے اضافی نوٹ کا حوالہ دیا اور جسٹس یحیٰی آفریدی کا فل کورٹ بنانے سے متعلق نوٹ پڑھ کر سنایا۔

موجودہ صورتحال میں فل کورٹ کویہ معاملہ سننا چاہیے: اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں فل کورٹ کویہ معاملہ سننا چاہیے،جسٹس یحیٰی آفریدی کے موقف کی تائید میں فل کورٹ بنانے کی استدعا ہے، آرمی ایکٹ سے متعلق یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، فل کورٹ سنے۔

جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ آپ نے پچھلی سماعت پر ایک ممبر پر اعتراض کیا، اب فل کورٹ بنانےکی استدعا کیسے کر رہے ہیں؟

اٹارنی جنرل منصورعثمان کا کہنا تھا کہ دستیاب ممبران پر مشتمل بینچ بنانےکی استدعا کی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نےکہا کہ کون یہ فیصلہ کرےگا کہ کون سے ججز دستیاب ہیں؟ اٹارنی جنرل نےکہا کہ چیف جسٹس نے فیصلہ کرنا ہےکہ کون سے ججز موجود ہیں اور ان کا بینچ بنایا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ چیف جسٹس نے دستیاب ممبران پربینچ نہیں بنایا ہوگا؟

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہےکہ آپ اپنے دلائل اسی بینچ کے سامنے جاری رکھیں، آپ نے ماشااللہ اتنا تفصیلی جواب جمع کرایا ہے اس پر دلائل دیں۔

جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ جب کیس شروع ہوا تو آپ کو کسی پر اعتراض نہیں تھا، پھر حکومت نے ایک جج پر اعتراض کیا، اب بینچ دوبارہ بنانےکی استدعا کر رہے ہیں، میں آپ کا موقف سمجھنے سے قاصر ہوں۔

عوامی مفاد کےکیس میں کسی جج کا ذاتی مفاد نہیں ہوتا: چیف جسٹس

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تمام ججز کی دل سے عزت اور ان کے موقف کو احترام سے دیکھتا ہوں، میں نے بھی جسٹس یحیٰی آفریدی کا نوٹ پڑھا، آپ میرے بھائی یحیٰی کی گریس دیکھیں، انہوں نے بینچ تشکیل کے بجائےعدالت کی توقیر اور اعتماد کی بات کی، اس حقیقت کے باوجود کہ یہ کیس کافی حد تک سنا جاچکا ہے کچھ کہنا چاہتا ہوں، جب بینچ بنایا تب تمام ججز سے موقف لیا اور دستیاب ججز پربینچ بنایا،کیس کے پہلے دن 2 ججز نے اپنی وجوہات پرکیس سننے سے معذرت کی، تعجب ہوا جب وفاق نے دوسری سماعت پر آ کر ایک جج پر اعتراض کیا، جسٹس منصور نے اپنی وجوہات پرکیس سننے سے معذرت کی، عوامی مفاد کےکیس میں کسی جج کا ذاتی مفاد نہیں ہوتا، بینچ 9 ججز سے کم ہوکر 6 ججز پر رہ گیا۔

وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانےکی استدعا مسترد

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ فل کورٹ اس وقت بنانا ناممکن ہے، تمام ججز پر مشتمل بینچ بنانا تکنیکی بنیاد پر ہی ممکن نہیں، تین ججز نےکیس سننے سے معذرت کی،کچھ ججز ملک میں نہیں ہیں، ہم آپ کو تفصیل سے سننے کے لیے وقت دیں گے، تمام ججز کی دل سے عزت اور ان کے موقف کو احترام سے دیکھتا ہوں، خوشی ہوئی کہ فوجی تحویل میں افراد کو ان کے اہلخانہ سے ملنے کی اجازت دی گئی، اس کیس میں آئینی سوالات کے جوابات ملنا ضروری ہیں، ملک میں ہر ایک فکرمند ہےکہ سویلن کو کیسے آرمی ایکٹ کے سخت مدار سے گزارا جائےگا؟ آرمی ایکٹ ایک سخت قانون ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزاروں کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں، اب اٹارنی جنرل صاحب آپ نے تمام سوالات کے جوابات دینے ہیں، لطیف کھوسہ نے شروع میں ہی کہا تھا کہ انسداد دہشت گردی عدالت میں مقدمات چلائے جائیں، ہرکوئی تسلیم کرتا ہےکہ 9 مئی کے واقعات سنجیدہ نوعیت کے تھے، فل کورٹ کی درخواست پر ہم آپس میں مشاورت کرلیں گے، فل الحال فل کورٹ بنانا ممکن نہیں۔

وفاقی حکومت نے جواب جمع کرادیا

وفاقی حکومت نےگزشتہ روز سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اپنا جواب جمع کرا دیا تھا جس میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی ہے۔

31 صفحات پرمشتمل جواب اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کروایا گیا ہے جس میں فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں ناقابل سماعت قرار دینے کی استدعابھی کی گئی ہے۔

وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا ہےکہ درخواست گزار ہائی کورٹس سے رجوع کرسکتے ہیں، آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ آئین پاکستان سے پہلے سے موجود ہیں، ان دونوں ایکٹ کو آج تک چیلنج نہیں کیا گیا، آرمی اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیے گئے اقدامات قانون کے مطابق درست ہیں، سپریم کورٹ براہ راست اس کیس کو نہ سنے، فوجی عدالتوں کے خلاف کیس فل کورٹ کو سننا چاہیے۔

وفاقی حکومت کا موقف ہےکہ کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی بھی فل کورٹ بنانے کی رائے دے چکے ہیں،9 مئی کو فوجی تنصیبات کو منظم انداز میں نشانہ بنایا گیا، 9 مئی کے واقعات میں منصوبہ بندی سے مسلح افواج کو نشانہ بنایا گیا، 9 مئی کو صرف پنجاب میں 62 واقعات ہوئے،کور کمانڈر ہاؤس لاہور اور جی ایچ کیو کو نشانہ بنایا گیا، پی اے ایف میانوالی اور آئی ایس آئی فیصل آباد آفس کو بھی نشانہ بنایا گیا، ان حملوں میں 2 ارب 53 کروڑ 91لاکھ سے زائد کا نقصان ہوا، فوجی تنصیبات کو1 ارب 98 کروڑ 29 لاکھ سے زائد کا نقصان ہوا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ دفاعی تنصیبات اور فوجی دفاترپر حملہ براہ راست قومی سلامتی کا معاملہ ہے، غیرملکی طاقتیں پاکستان کی قومی سلامتی اور فوج کو کمزور کرنا چاہتی ہیں، کلبھوشن جادھو اور شکیل آفریدی کے واقعات اس بات کے ثبوت ہیں۔

مزید خبریں :